انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اتوار کی شام سے مظاہروں میں شدت آنے کے بعد پانچ افراد ہلاک ہو ئے جب کہ مظاہرین صدر محمد مرسی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مصر میں مظاہرین نے صدر مرسی کی جماعت اخوان المسلمین کے قاہرہ میں ایک صدر دفتر پر حملہ کیا ہے اور وہاں توڑ پھوڑ کی ہے۔
مظاہرین کے ایک گروپ نے پیر کو جماعت کے مرکزی دفتر کے شیشے توڑ دیئے جب کہ فرنیچر اور کئی دفتری فائلوں کو بھی عمارت سے باہر پھینک دیا۔
اخوان المسلیمن کے اس صدر دفتر کو پہلے ہی خالی کر دیا گیا تھا کیوں کہ مظاہرین نے اس سے قبل بھی عمارت پر اینٹیں پھیکنی تھیں جب کہ عمارت میں موجود حکمران جماعت کے عہدیداروں نے مظاہرین پر جواباً فائرنگ بھی کی تھی۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اتوار کی شام سے مظاہروں میں شدت آنے کے بعد پانچ افراد ہلاک ہو ئے ہیں۔ مظاہرین صدر محمد مرسی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
لاکھوں مظاہرین قاہرہ کے ’التحریر اسکوائر‘ پر رات بھر موجود رہے۔ 2011ء میں سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بعد اتوار کو سب سے زیادہ لوگ موجودہ حکومت کے خلاف اکٹھے ہوئے تھے۔
حسنی مبارک کو انھی مظاہروں کے باعث اقتدار چھوڑنا پڑا۔
عرب میڈیا کے مطابق قاہرہ اور مصر کے مختلف مظاہروں میں شریک افراد کی تعداد تیس لاکھ تھی۔
اس سے قبل اتوار کو صدر مرسی کے حامیوں نے صدارتی محل کے قریب مسجد کے باہر جمع ہو کر ایک ریلی نکالی۔
ملک میں کشیدگی کے بعد صدر کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ملک کو درپیش سیاسی بحران کا واحد حل مذاکرات ہی ہیں۔
محمد مرسی نے برطانوی اخبار ’گارڈین‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر وہ دباؤ میں آ کر اقتدار سے الگ ہو بھی جائیں تو اُن کے بقول نئے صدر کو بھی حزب اختلاف کی طرف سے ایسے ہی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مظاہرین کے ایک گروپ نے پیر کو جماعت کے مرکزی دفتر کے شیشے توڑ دیئے جب کہ فرنیچر اور کئی دفتری فائلوں کو بھی عمارت سے باہر پھینک دیا۔
اخوان المسلیمن کے اس صدر دفتر کو پہلے ہی خالی کر دیا گیا تھا کیوں کہ مظاہرین نے اس سے قبل بھی عمارت پر اینٹیں پھیکنی تھیں جب کہ عمارت میں موجود حکمران جماعت کے عہدیداروں نے مظاہرین پر جواباً فائرنگ بھی کی تھی۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اتوار کی شام سے مظاہروں میں شدت آنے کے بعد پانچ افراد ہلاک ہو ئے ہیں۔ مظاہرین صدر محمد مرسی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
لاکھوں مظاہرین قاہرہ کے ’التحریر اسکوائر‘ پر رات بھر موجود رہے۔ 2011ء میں سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بعد اتوار کو سب سے زیادہ لوگ موجودہ حکومت کے خلاف اکٹھے ہوئے تھے۔
حسنی مبارک کو انھی مظاہروں کے باعث اقتدار چھوڑنا پڑا۔
عرب میڈیا کے مطابق قاہرہ اور مصر کے مختلف مظاہروں میں شریک افراد کی تعداد تیس لاکھ تھی۔
اس سے قبل اتوار کو صدر مرسی کے حامیوں نے صدارتی محل کے قریب مسجد کے باہر جمع ہو کر ایک ریلی نکالی۔
ملک میں کشیدگی کے بعد صدر کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ملک کو درپیش سیاسی بحران کا واحد حل مذاکرات ہی ہیں۔
محمد مرسی نے برطانوی اخبار ’گارڈین‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر وہ دباؤ میں آ کر اقتدار سے الگ ہو بھی جائیں تو اُن کے بقول نئے صدر کو بھی حزب اختلاف کی طرف سے ایسے ہی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔