صدر محمد مرسی کے مشیر برائے قومی سلامتی نے الزام عائد کیا ہے کہ فوج نے حکومت کا تختہ الٹنے کا آغاز کردیا ہے
واشنگٹن —
مصر میں فوج کی جانب سے صدر مرسی کو دی جانے والی 48 گھنٹوں کی مہلت ختم ہونے کے بعد صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہے اور صدر کے قریبی مشیروں نے فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
صدر محمد مرسی کے مشیر برائے قومی سلامتی نے الزام عائد کیا ہے کہ فوج نے حکومت کا تختہ الٹنے کا آغاز کردیا ہے اور سڑکوں اور چوراہوں پر موجود صدر مرسی کے حامیوں کے خلاف فوج اور پولیس پرتشدد ہتھکنڈے استعمال کرسکتی ہے۔
صدر کے مشیر اعصام الحداد نے اپنے 'فیس بک' پیج پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ جمہوریت اور صدارت کے تحفظ کے لیے لاکھوں مصری شہری سڑکوں پر جمع ہیں جو کسی بھی حملے سے خوفزدہ ہو کر اپنا میدان نہیں چھوڑیں گے۔
صدر مرسی کے مشیر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ موجودہ دور میں رائے عامہ کے خلاف کوئی بھی فوجی بغاوت اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اس کےلیے بے تحاشا خون نہ بہایا جائے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے مصر کے سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ فوج کی جانب سے حکومت کی دی جانے والی مہلت گزرنے کے بعد مصری فوج نے صدر مرسی اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے کئی رہنمائوں کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔
'رائٹرز' نے عینی شاہدین کے حوالے سے کہا ہے کہ مصری فوج نے صدارتی دفتر کےنزدیک خاردار تاریں لگادی ہیں جب کہ دارالحکومت قاہرہ کے اس مقام پر بھی غیر معمولی فوجی نقل و حرکت دیکھی جارہی ہے جہاں صدر کے ہزاروں حامی جمع ہیں۔
خیال رہے کہ مصر کی فوج نے سیاست دانوں کو متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ بدھ کی شام پانچ بجے تک اپنے اختلافات طے کرنے میں ناکام رہے تو فوج "ملک کے مستقبل کے لیے اپنا لائحہ عمل پیش کرے گی"۔
صدر مرسی اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے رہنمائوں نے فوج کے بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کسی بھی فوجی مداخلت کی سخت مزاحمت کرنے کا اعلان کر رکھا ہے جب کہ اس کے برعکس حزبِ اختلاف کی جانب سے فوج کے بیان کا خیرمقدم کیا گیا تھا۔
دارالحکومت قاہرہ سمیت ملک کے کئی شہروں اور قصبوں کی سڑکوں اور چوراہوں پر صدر مرسی کے مخالفین اور حامی ہزاروں کی تعداد میں جمع ہیں جن کے درمیان کئی مقامات پر جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
مصر کے سرکاری ٹی وی کے مطابق منگل کی شب قاہرہ یونی ورسٹی کے سامنے جمع ہونے والے صدر مرسی کے حامیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 16 افراد ہلاک ہوگئے ہیں جب کہ 200 سے زائد زخمی ہیں۔
سرکاری ٹی وی کے دعویٰ کے برعکس سیکیورٹی حکام نے کہا ہے کہ مذکورہ ہلاکتیں حکومت کے حامیوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں ہوئی ہیں۔
صدر مرسی کےایک مشیر نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ صدر نے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ وہ فوج کی جانب سے بغاوت کی مزاحمت کریں۔
صدر کے مشیرِ مواصلات یاسر حدارا کے بقول صدر نے قوم سے کہا ہے کہ وہ اپنی مزاحمت کو پرامن رکھیں اور فوج، پولیس اور ایک دوسرے کے خلاف پرتشدد کاروائیاں نہ کریں۔
صدارتی مشیر نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ بدھ کو صدر مرسی نے اپنے دفتر میں معمول کی سرگرمیاں انجام دیں اور سیاسی حالات انتہائی کشیدہ ہونے کے باوجود صدر اور فوج کی اعلیٰ قیادت کے درمیان بدھ کو کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق فوج کی جانب سے حکومت کو دی جانے والی شام پانچ بجے کی مہلت ختم ہونے سے قبل ہی فوجی دستوں نے بدھ کو دارالحکومت قاہرہ میں واقع سرکاری ٹی وی کے دفاتر کا کنڑول سنبھال لیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق فوجی اہلکار ٹی وی چینل کے دفتر کے اندر اور باہر گشت کر رہے ہیں اور چینل کے تمام غیر ضروری ملازمین کو گھر روانہ کردیا گیا ہے۔
فوج کی جانب سے دی جانے والی مہلت ختم ہونے سے چند منٹ قبل قاہرہ میں صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے حزبِ اختلاف کے ساتھ ایک متفقہ عبوری حکومت کے قیام پر بات چیت ہوسکتی ہے۔
لیکن مصری حزبِ اختلاف کے رہنمائوں نے صدر مرسی کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش کو ٹھکراتے ہوئے ملک کے فوجی سربراہ کے ساتھ ملاقات کی ہے۔
مصری فوج کے سربراہ نے حزبِ اختلاف کی لبرل اور سیکولر جماعتوں کے قائدین کے علاوہ مذہبی راہنمائوں، صدر مرسی کے خلاف جاری احتجاجی تحریک کے قائدین، پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی بعض چھوٹی اسلام پسند جماعتوں کے رہنمائوں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کی ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع 'پینٹاگون' سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق وزیرِ دفاع چک ہیگل نے بھی مصر کے فوجی سربراہعبدالفتاح السیسی کو ٹیلی فون کیا ہے اور ان سے مصر کی صورتِ حال پر گفتگو کی ہے۔
جنرل السیسی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ فوج، ان کے بقول، ’’دہشت گردوں، بنیاد پرستوں اور احمقوں‘‘ سے ملک کو بچانے کے لیے اپنا خون بہانے کو تیار ہے۔
پانچ بجے کی ڈیڈلائن گزرنے سے چند گھنٹے قبل مسلح افواج کے سربراہان کی جانب 'آخری گھنٹے (فائنل آورز)' کے عنوان سے جاری کیے جانے والے بیان میں ملک میں امن و امان کی بحالی کا عزم ظاہر بھی کیا گیا تھا۔
اس سے قبل منگل کی شب قوم سے اپنے خطاب میں صدر محمد مرسی نے کہا تھا کہ وہ قانونی طریقے سے صدر کے منصب پر فائز ہوئے ہیں اور اس پر برقرار رہیں گے۔
انھوں نے فوج سے سیاسی بحران میں مداخلت کی دھمکی واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عہدہ چھوڑنے کے بجائے فوجی بغاوت کے مقابلے پر جان دینے کو ترجیح دیں گے۔
صدر محمد مرسی کے مشیر برائے قومی سلامتی نے الزام عائد کیا ہے کہ فوج نے حکومت کا تختہ الٹنے کا آغاز کردیا ہے اور سڑکوں اور چوراہوں پر موجود صدر مرسی کے حامیوں کے خلاف فوج اور پولیس پرتشدد ہتھکنڈے استعمال کرسکتی ہے۔
صدر کے مشیر اعصام الحداد نے اپنے 'فیس بک' پیج پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ جمہوریت اور صدارت کے تحفظ کے لیے لاکھوں مصری شہری سڑکوں پر جمع ہیں جو کسی بھی حملے سے خوفزدہ ہو کر اپنا میدان نہیں چھوڑیں گے۔
صدر مرسی کے مشیر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ موجودہ دور میں رائے عامہ کے خلاف کوئی بھی فوجی بغاوت اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اس کےلیے بے تحاشا خون نہ بہایا جائے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے مصر کے سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ فوج کی جانب سے حکومت کی دی جانے والی مہلت گزرنے کے بعد مصری فوج نے صدر مرسی اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے کئی رہنمائوں کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔
'رائٹرز' نے عینی شاہدین کے حوالے سے کہا ہے کہ مصری فوج نے صدارتی دفتر کےنزدیک خاردار تاریں لگادی ہیں جب کہ دارالحکومت قاہرہ کے اس مقام پر بھی غیر معمولی فوجی نقل و حرکت دیکھی جارہی ہے جہاں صدر کے ہزاروں حامی جمع ہیں۔
خیال رہے کہ مصر کی فوج نے سیاست دانوں کو متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ بدھ کی شام پانچ بجے تک اپنے اختلافات طے کرنے میں ناکام رہے تو فوج "ملک کے مستقبل کے لیے اپنا لائحہ عمل پیش کرے گی"۔
صدر مرسی اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے رہنمائوں نے فوج کے بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کسی بھی فوجی مداخلت کی سخت مزاحمت کرنے کا اعلان کر رکھا ہے جب کہ اس کے برعکس حزبِ اختلاف کی جانب سے فوج کے بیان کا خیرمقدم کیا گیا تھا۔
دارالحکومت قاہرہ سمیت ملک کے کئی شہروں اور قصبوں کی سڑکوں اور چوراہوں پر صدر مرسی کے مخالفین اور حامی ہزاروں کی تعداد میں جمع ہیں جن کے درمیان کئی مقامات پر جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
مصر کے سرکاری ٹی وی کے مطابق منگل کی شب قاہرہ یونی ورسٹی کے سامنے جمع ہونے والے صدر مرسی کے حامیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 16 افراد ہلاک ہوگئے ہیں جب کہ 200 سے زائد زخمی ہیں۔
سرکاری ٹی وی کے دعویٰ کے برعکس سیکیورٹی حکام نے کہا ہے کہ مذکورہ ہلاکتیں حکومت کے حامیوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں ہوئی ہیں۔
صدر مرسی کےایک مشیر نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ صدر نے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ وہ فوج کی جانب سے بغاوت کی مزاحمت کریں۔
صدر کے مشیرِ مواصلات یاسر حدارا کے بقول صدر نے قوم سے کہا ہے کہ وہ اپنی مزاحمت کو پرامن رکھیں اور فوج، پولیس اور ایک دوسرے کے خلاف پرتشدد کاروائیاں نہ کریں۔
صدارتی مشیر نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ بدھ کو صدر مرسی نے اپنے دفتر میں معمول کی سرگرمیاں انجام دیں اور سیاسی حالات انتہائی کشیدہ ہونے کے باوجود صدر اور فوج کی اعلیٰ قیادت کے درمیان بدھ کو کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق فوج کی جانب سے حکومت کو دی جانے والی شام پانچ بجے کی مہلت ختم ہونے سے قبل ہی فوجی دستوں نے بدھ کو دارالحکومت قاہرہ میں واقع سرکاری ٹی وی کے دفاتر کا کنڑول سنبھال لیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق فوجی اہلکار ٹی وی چینل کے دفتر کے اندر اور باہر گشت کر رہے ہیں اور چینل کے تمام غیر ضروری ملازمین کو گھر روانہ کردیا گیا ہے۔
فوج کی جانب سے دی جانے والی مہلت ختم ہونے سے چند منٹ قبل قاہرہ میں صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے حزبِ اختلاف کے ساتھ ایک متفقہ عبوری حکومت کے قیام پر بات چیت ہوسکتی ہے۔
لیکن مصری حزبِ اختلاف کے رہنمائوں نے صدر مرسی کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش کو ٹھکراتے ہوئے ملک کے فوجی سربراہ کے ساتھ ملاقات کی ہے۔
مصری فوج کے سربراہ نے حزبِ اختلاف کی لبرل اور سیکولر جماعتوں کے قائدین کے علاوہ مذہبی راہنمائوں، صدر مرسی کے خلاف جاری احتجاجی تحریک کے قائدین، پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی بعض چھوٹی اسلام پسند جماعتوں کے رہنمائوں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کی ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع 'پینٹاگون' سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق وزیرِ دفاع چک ہیگل نے بھی مصر کے فوجی سربراہعبدالفتاح السیسی کو ٹیلی فون کیا ہے اور ان سے مصر کی صورتِ حال پر گفتگو کی ہے۔
جنرل السیسی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ فوج، ان کے بقول، ’’دہشت گردوں، بنیاد پرستوں اور احمقوں‘‘ سے ملک کو بچانے کے لیے اپنا خون بہانے کو تیار ہے۔
پانچ بجے کی ڈیڈلائن گزرنے سے چند گھنٹے قبل مسلح افواج کے سربراہان کی جانب 'آخری گھنٹے (فائنل آورز)' کے عنوان سے جاری کیے جانے والے بیان میں ملک میں امن و امان کی بحالی کا عزم ظاہر بھی کیا گیا تھا۔
اس سے قبل منگل کی شب قوم سے اپنے خطاب میں صدر محمد مرسی نے کہا تھا کہ وہ قانونی طریقے سے صدر کے منصب پر فائز ہوئے ہیں اور اس پر برقرار رہیں گے۔
انھوں نے فوج سے سیاسی بحران میں مداخلت کی دھمکی واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عہدہ چھوڑنے کے بجائے فوجی بغاوت کے مقابلے پر جان دینے کو ترجیح دیں گے۔