محمد مرسی کی حامی جماعت اخوان المسلمین کے ایک ترجمان نے جمعرات کو ہلاکتوں کی تعداد سرکاری اندازوں سے کہیں زیادہ بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان واقعات میں 4500 لوگ مارے گئے۔
مصر میں اخوان المسلمین نے اپنے حامیوں کو دارالحکومت قاہرہ میں جمعرات کو تازہ مظاہرے کی درخواست کی ہے، جب کہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے گزشتہ روز کی گئی کارروائی میں ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 578 ہوگئی ہے۔
اخوان کا کہنا ہے کہ مجوزہ مظاہرہ شہر میں بدھ کو ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کے لیے کیا جا رہا ہے۔
حکام نے ملک میں ایک ماہ کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے گزشتہ شب کرفیو نافذ کر دیا تھا۔
ایک روز قبل یہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب سکیورٹی فورسز نے قاہرہ میں برطرف صدر محمد مرسی کے حامی مظاہرین کے احتجاجی کیمپوں کو ہٹانے کے لیے بکتر بند گاڑیوں اور بلڈوزر کا استعمال شروع کیا۔ یہ جھڑپیں بعد ازاں ملک کے دیگر شہروں بشمول اسکندریہ اور سوئز تک پھیل گئیں۔
حکام نے گزشتہ ہفتے مظاہرین کو اپنے احتجاجی کیمپ ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ بصورت دیگر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
مسٹر مرسی کی حامی جماعت اخوان المسلمین کے ایک ترجمان نے جمعرات کو ہلاکتوں کی تعداد سرکاری اندازوں سے کہیں زیادہ بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان واقعات میں ساڑھے چار ہزار لوگ مارے گئے۔
وزیر داخلہ محمد ابراہیم نے سکیورٹی فورسز کی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے کیمپوں کے خلاف کم سے کم طاقت کا استعمال کیا اور صرف آنسو گیس پھینکی۔ وزیر نے صورتحال کا ذمہ دار اخوان کو قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ اس جماعت کے کارکنوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں پولیس پر فائرنگ کی، سرکاری عمارتوں پر حملے کیے اور گرجا گھروں کو نذر آتش کیا۔
مصر میں مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں پر امریکہ سمیت مختلف ممالک نے شدید مذمت کی ہے۔
اخوان کا کہنا ہے کہ مجوزہ مظاہرہ شہر میں بدھ کو ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کے لیے کیا جا رہا ہے۔
حکام نے ملک میں ایک ماہ کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے گزشتہ شب کرفیو نافذ کر دیا تھا۔
ایک روز قبل یہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب سکیورٹی فورسز نے قاہرہ میں برطرف صدر محمد مرسی کے حامی مظاہرین کے احتجاجی کیمپوں کو ہٹانے کے لیے بکتر بند گاڑیوں اور بلڈوزر کا استعمال شروع کیا۔ یہ جھڑپیں بعد ازاں ملک کے دیگر شہروں بشمول اسکندریہ اور سوئز تک پھیل گئیں۔
حکام نے گزشتہ ہفتے مظاہرین کو اپنے احتجاجی کیمپ ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ بصورت دیگر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
مسٹر مرسی کی حامی جماعت اخوان المسلمین کے ایک ترجمان نے جمعرات کو ہلاکتوں کی تعداد سرکاری اندازوں سے کہیں زیادہ بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان واقعات میں ساڑھے چار ہزار لوگ مارے گئے۔
وزیر داخلہ محمد ابراہیم نے سکیورٹی فورسز کی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے کیمپوں کے خلاف کم سے کم طاقت کا استعمال کیا اور صرف آنسو گیس پھینکی۔ وزیر نے صورتحال کا ذمہ دار اخوان کو قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ اس جماعت کے کارکنوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں پولیس پر فائرنگ کی، سرکاری عمارتوں پر حملے کیے اور گرجا گھروں کو نذر آتش کیا۔
مصر میں مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں پر امریکہ سمیت مختلف ممالک نے شدید مذمت کی ہے۔