حزب مخالف کو یہ خدشہ ہے کہ ہفتے کے روز کے ریفرنڈم میں، مصر کے لوگوں کی اکثریت جو راسخ العقیدہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، اس آئین کے حق میں ووٹ دے دے گی۔
قاہرہ —
مصر میں آئین کا مسودہ تحریر کرنے والوں نے جو منشور تخلیق کیا ہے اس نے بہت سے قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے گروپوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے ۔ اس مسودے پر ہفتے کے روز قومی ریفرنڈم ہونے والا ہے۔
مصرکے صدر محمد مرسی نے ملک کا نیا آئین تحریر کرنے والوں کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے تین مہینے کا فاضل وقت دیا تھا ۔ لیکن جب انھوں نے محسوس کیا کہ عدالت کی طرف سے ان کی قانونی حیثیت پر وار ہونے والا ہے، تو انھوں نے ایک غیر معمولی اقدام کیا ۔ ان لوگوں نے جن کی اکثریت اسلام پسندوں پر مشتمل تھی، گذشتہ مہینے کے آخر میں ،پوری رات کے اجلاس کے بعدآئین کے مسودے کو آخری شکل دے دی۔
لبرل اور سیکولر قانون سازوں نے اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا ۔ ناقدین نے اس دستاویز کو بھونڈا مذاق قرار دیا اور احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔
انہیں یہ خدشہ ہے کہ ہفتے کے روز کے ریفرنڈم میں، مصر کے لوگوں کی اکثریت جو راسخ العقیدہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، اس آئین کے حق میں ووٹ دے دے گی۔
مصطفیٰ اللیباد، الشرق سینٹر فار ریجنل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ آئین کا فیصلہ محض لوگوں کی تعداد کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیئے۔’’آئین تمام دھڑوں اور پارٹیوں کے ساتھ مصالحت کی بنا پر تحریر کیا جا سکتا ہے اور منظور کیا جا سکتا ہے ۔ اگر آپ کی معمولی سی اکثریت ہے، تو آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیئے کہ آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔‘‘
مخالفین کے شور مچانے کے باوجود، بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ مسودہ شرعی قانون کے نفاذ کا بلو پرنٹ نہیں ہے۔
قاہرہ میں امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر سعید صادق کہتے ہیں’’اس مسودے میں کچھ مثبت باتیں ہیں اور کچھ منفی پہلو ہیں۔ اس میں کچھ چیزیں شامل ہونے سے رہ گئی ہیں ۔ اس میں کچھ خطرناک چیزیں بھی ہیں۔‘‘
یہ بات واضح نہیں ہے کہ قانون سازی میں شریعت کے کن اصولوں سے رہنمائی حاصل کی جائے گی۔ مثال کے طور پر، صادق دو ممتاز دانشوروں کا حوالہ دیتے ہیں، ان میں سے ایک عورتوں کو برابر کے حقوق دے گا، جب کہ دوسرا انہیں گھر میں بٹھائے رکھنا پسند کرے گا۔
’’یہ شریعت ہے اور یہ بھی شریعت ہے ۔ آپ ان میں سے کس کے حق میں ہیں؟ آپ ترقی پسند شریعت چاہتے ہیں یا رجعت پسند شریعت۔؟‘‘
آئین کا مسودہ تحریر کرنے والے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ جدید، اعتدال پسند ریاست کے خواہشمند ہیں۔ تا ہم، مصر میں ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر حبا مورایف کہتی ہیں کہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی نیت کیا ہے۔ انہیں ان شقوں پر اعتراض ہے جن کے تحت حکومت اخلاقی اقدار اور گھریلو زندگی پر نظر رکھ سکتی ہے۔
’’اس مسودے میں حکومت کو اس قسم کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مصری گھرانے کے اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر بنیادی حقوق کو محدود کر سکتی ہے۔ اس طرح آئین میں حقوق کو جو تحفظ دیا گیا ہے، وہ بنیادی طور پر کمزور ہو جاتا ہے ۔‘‘
اخوان المسلمین نے جس کا مسودہ تیار کرنے والی اسمبلی میں غلبہ تھا، تنقید کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس مسودے سے ایک جمہوری حکومت کی تعمیر کا خواب پورا ہوتا ہے ۔
مسودہ تیار کرنے والے لوگ مصریوں کو یہ یقین دلانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی تقریر کی آزادی کی حفاظت کی جائے گی ۔ عجیب بات یہ ہے کہ انھوں نے حال ہی میں جو وڈیو جاری کیا ہے، اس میں بہت سے کارٹون کرداروں کا منہ سرے سے ہے ہی نہیں۔
مصر کے لوگوں میں اختلافات کی خلیج اتنی وسیع ہو گئی ہے کہ صادق کا خیال ہے کہ بہتر یہی ہو گا کہ پرانے آئین کو ہی عارضی طور پر بحال کر دیا جائے اور اس میں وہ ترامیم شامل کر دی جائیں جو گذشتہ سال منظور کی گئی تھیں ۔ اس کے بعد، جب حالات پر سکون ہو جائیں، تو بعد میں اتفاقِ رائے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
’’امریکہ کو دس برس لگے اور بہت سے ملکوں نے بہت وقت لیا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ آَئین کی وجہ سے سخت تباہی آ سکتی ہے اور ملک میں سخت اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔‘‘
لیکن مصر میں ہفتے کے روز ریفرنڈم ہونے والا ہے، اور موجودہ حالات میں، ملک میں امن و سکون اور اتفاقِ رائے حاصل کرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
مصرکے صدر محمد مرسی نے ملک کا نیا آئین تحریر کرنے والوں کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے تین مہینے کا فاضل وقت دیا تھا ۔ لیکن جب انھوں نے محسوس کیا کہ عدالت کی طرف سے ان کی قانونی حیثیت پر وار ہونے والا ہے، تو انھوں نے ایک غیر معمولی اقدام کیا ۔ ان لوگوں نے جن کی اکثریت اسلام پسندوں پر مشتمل تھی، گذشتہ مہینے کے آخر میں ،پوری رات کے اجلاس کے بعدآئین کے مسودے کو آخری شکل دے دی۔
لبرل اور سیکولر قانون سازوں نے اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا ۔ ناقدین نے اس دستاویز کو بھونڈا مذاق قرار دیا اور احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔
انہیں یہ خدشہ ہے کہ ہفتے کے روز کے ریفرنڈم میں، مصر کے لوگوں کی اکثریت جو راسخ العقیدہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، اس آئین کے حق میں ووٹ دے دے گی۔
مصطفیٰ اللیباد، الشرق سینٹر فار ریجنل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ آئین کا فیصلہ محض لوگوں کی تعداد کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیئے۔’’آئین تمام دھڑوں اور پارٹیوں کے ساتھ مصالحت کی بنا پر تحریر کیا جا سکتا ہے اور منظور کیا جا سکتا ہے ۔ اگر آپ کی معمولی سی اکثریت ہے، تو آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیئے کہ آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔‘‘
مخالفین کے شور مچانے کے باوجود، بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ مسودہ شرعی قانون کے نفاذ کا بلو پرنٹ نہیں ہے۔
قاہرہ میں امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر سعید صادق کہتے ہیں’’اس مسودے میں کچھ مثبت باتیں ہیں اور کچھ منفی پہلو ہیں۔ اس میں کچھ چیزیں شامل ہونے سے رہ گئی ہیں ۔ اس میں کچھ خطرناک چیزیں بھی ہیں۔‘‘
یہ بات واضح نہیں ہے کہ قانون سازی میں شریعت کے کن اصولوں سے رہنمائی حاصل کی جائے گی۔ مثال کے طور پر، صادق دو ممتاز دانشوروں کا حوالہ دیتے ہیں، ان میں سے ایک عورتوں کو برابر کے حقوق دے گا، جب کہ دوسرا انہیں گھر میں بٹھائے رکھنا پسند کرے گا۔
’’یہ شریعت ہے اور یہ بھی شریعت ہے ۔ آپ ان میں سے کس کے حق میں ہیں؟ آپ ترقی پسند شریعت چاہتے ہیں یا رجعت پسند شریعت۔؟‘‘
آئین کا مسودہ تحریر کرنے والے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ جدید، اعتدال پسند ریاست کے خواہشمند ہیں۔ تا ہم، مصر میں ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر حبا مورایف کہتی ہیں کہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی نیت کیا ہے۔ انہیں ان شقوں پر اعتراض ہے جن کے تحت حکومت اخلاقی اقدار اور گھریلو زندگی پر نظر رکھ سکتی ہے۔
’’اس مسودے میں حکومت کو اس قسم کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مصری گھرانے کے اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر بنیادی حقوق کو محدود کر سکتی ہے۔ اس طرح آئین میں حقوق کو جو تحفظ دیا گیا ہے، وہ بنیادی طور پر کمزور ہو جاتا ہے ۔‘‘
اخوان المسلمین نے جس کا مسودہ تیار کرنے والی اسمبلی میں غلبہ تھا، تنقید کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس مسودے سے ایک جمہوری حکومت کی تعمیر کا خواب پورا ہوتا ہے ۔
مسودہ تیار کرنے والے لوگ مصریوں کو یہ یقین دلانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی تقریر کی آزادی کی حفاظت کی جائے گی ۔ عجیب بات یہ ہے کہ انھوں نے حال ہی میں جو وڈیو جاری کیا ہے، اس میں بہت سے کارٹون کرداروں کا منہ سرے سے ہے ہی نہیں۔
مصر کے لوگوں میں اختلافات کی خلیج اتنی وسیع ہو گئی ہے کہ صادق کا خیال ہے کہ بہتر یہی ہو گا کہ پرانے آئین کو ہی عارضی طور پر بحال کر دیا جائے اور اس میں وہ ترامیم شامل کر دی جائیں جو گذشتہ سال منظور کی گئی تھیں ۔ اس کے بعد، جب حالات پر سکون ہو جائیں، تو بعد میں اتفاقِ رائے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
’’امریکہ کو دس برس لگے اور بہت سے ملکوں نے بہت وقت لیا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ آَئین کی وجہ سے سخت تباہی آ سکتی ہے اور ملک میں سخت اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔‘‘
لیکن مصر میں ہفتے کے روز ریفرنڈم ہونے والا ہے، اور موجودہ حالات میں، ملک میں امن و سکون اور اتفاقِ رائے حاصل کرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔