مصر کی ایک عدالت نے برطرف کے گیے صدر محمد مرسی کو 20 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
منگل کو قاہرہ میں عدالت نے سابق صدر کو یہ سزا 2012ء میں تین مظاہرین کی ہلاکتوں سے متعلق ایک مقدمے میں سنائی۔
مصر کی قومی پولیس اکیڈمی میں قائم عدالت کی طرف سے سنائے گئے فیصلے کے وقت مرسی اور ان کی جماعت اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے دیگر ملزمان بھی وہاں موجود تھے۔
مقدمے میں ملزمان کو سزائے موت نہیں دی گئی اور جج احمد یوسف کا کہنا تھا کہ یہ سزا "طاقت کے استعمال اور غیر قانونی طور پر حراستوں کی پاداش میں دی گئی۔
چار سال قبل عوامی بغاوت کے ذریعے صدر حُسنی مبارک کا طویل عہد ختم ہونے کے بعد صدر مُرسی مصر کے لیے ایک روشن مستقبل کا وعدہ لے کر صدر منتخب ہوئے تھے۔
مگر ان کی پالیسیاں بشمول اس اعلان کے کہ ان کے فیصلوں کو عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا، بڑے پیمانے پر احتجاج کا سبب بنیں، جس کے بعد اس وقت فوج کے سربراہ عبد الفتاح السیسی نے ان کا تختہ الٹ دیا۔
فوج کی زیرِ قیادت اقتدار کی منتقلی کے عمل کے بعد السیسی خود صدر بن گئے۔ اس عمل میں مُرسی کی جماعت اخوان المسلمین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔
سابق صدر حُسنی مبارک کے عہد میں اخوان المسلمین پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ مُرسی کے اقتدار میں نئی زندگی پانے کے بعد اس پارٹی کو موجودہ حکومت نے دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا اور اس کے اکثر رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔
اخوان یہ کہتی رہی ہے کہ مُرسی ملک کے قانونی رہنما ہیں اور السیسی نے ان کے خلاف بغاوت کی ہے۔
منگل کو فیصلہ آنے سے پہلے اخوان نے ایک بیان میں کہا کہ صدر ’’عدلیہ کو عوام کی امنگوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘‘ بیان میں مصریوں سے پھر مظاہرے شروع کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔