مصر کی ایک عدالت نے عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق صدارتی حکم نامے کو معطل کرتے ہوئے انتخابی قوانین کے ازسرِ جائزے کا حکم دیا ہے۔
واشنگٹن —
مصر کی ایک عدالت نے عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق صدارتی حکم نامے کو معطل کرتے ہوئے انتخابی قوانین کے ازسرِ جائزے کا حکم دیا ہے۔
قاہرہ کی انتظامی عدالت نے بدھ کو اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وہ ان ترمیم شدہ انتخابی قوانین کو جائزے کے لیے ملک کی اعلیٰ ترین آئینی عدالت کو بھجوا رہی ہے جن کے تحت عام انتخابات ہونا ہیں۔
انتظامی عدالت کے اس حکم کے بعد مبصرین نے عام انتخابات کے التوا کا خدشہ ظاہر کیا ہے جس کے باعث ملک میں جاری سیاسی بے یقینی اور محاذ آرائی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
خیال رہے کہ مصر کے اسلام پسند صدر محمد مرسی نے 22 اپریل سے ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ ماہ جاری کیے جانے والے ایک صدارتی حکم نامے کے مطابق انتخابات کا انعقاد چار حصوں میں ہونا تھا جن کا سلسلہ جون میں مکمل ہونا تھا۔
تاہم مصر میں حزبِ اختلاف کی سیکولر اور لبرل جماعتوں نے انتخابی قوانین پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔
عدالت نے تیکنیکی بنیادوں پر دیے جانے والے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ مصری پارلیمان کے ایوانِ بالا 'شوریٰ کونسل' نے آئینی عدالت کی منظوری کے بغیر ہی انتخابی قوانین میں ترامیم منظور کرلی تھیں جو درست نہیں۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد سے قبل انتخابی قوانین کا عدالتی جائزہ ضروری ہے جس کے لیے ان قوانین کو آئینی عدالت بھجوایا جارہا ہے۔
مصر کی عدالتوں نے حالیہ کچھ عرصے میں کئی ایسے فیصلے دیے ہیں جو مصر کے صدر محمد مرسی اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے خلاف گئے ہیں۔
تاہم صدر مرسی کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔
اس سے قبل صدر کے ایک قانونی مشیر محمد غدالہ نے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد ازاں جاری کیے جانے والے صدارتی بیان میں اس امکان کو رد کردیا گیا ہے۔
صدر مرسی کے قانونی مشیر نے اپنے بیان میں صدر اور عدلیہ کے مابین محاذ آرائی کے تاثر کی نفی کرتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ 'شوریٰ کونسل' کو ترمیم شدہ انتخابی قوانین کا مسودہ حتمی جائزے کے لیے آئنی عدالت کو بھیجنا چاہیے تھا۔
خیال رہے کہ مصر کی اعلیٰ عدلیہ میں تعینات بیشتر ججوں کا تقرر سابق صدر حسنی مبارک کے دور میں کیا گیا تھا جنہوں نے اپنے عشروں طویل آمرانہ دورِ اقتدار میں 'اخوان المسلمون' اور دیگر اسلام پسندوں کو ریاست کا دشمن قرار دیتے ہوئے سختی سے دبا رکھا تھا۔
قاہرہ کی انتظامی عدالت نے بدھ کو اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وہ ان ترمیم شدہ انتخابی قوانین کو جائزے کے لیے ملک کی اعلیٰ ترین آئینی عدالت کو بھجوا رہی ہے جن کے تحت عام انتخابات ہونا ہیں۔
انتظامی عدالت کے اس حکم کے بعد مبصرین نے عام انتخابات کے التوا کا خدشہ ظاہر کیا ہے جس کے باعث ملک میں جاری سیاسی بے یقینی اور محاذ آرائی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
خیال رہے کہ مصر کے اسلام پسند صدر محمد مرسی نے 22 اپریل سے ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ ماہ جاری کیے جانے والے ایک صدارتی حکم نامے کے مطابق انتخابات کا انعقاد چار حصوں میں ہونا تھا جن کا سلسلہ جون میں مکمل ہونا تھا۔
تاہم مصر میں حزبِ اختلاف کی سیکولر اور لبرل جماعتوں نے انتخابی قوانین پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔
عدالت نے تیکنیکی بنیادوں پر دیے جانے والے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ مصری پارلیمان کے ایوانِ بالا 'شوریٰ کونسل' نے آئینی عدالت کی منظوری کے بغیر ہی انتخابی قوانین میں ترامیم منظور کرلی تھیں جو درست نہیں۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد سے قبل انتخابی قوانین کا عدالتی جائزہ ضروری ہے جس کے لیے ان قوانین کو آئینی عدالت بھجوایا جارہا ہے۔
مصر کی عدالتوں نے حالیہ کچھ عرصے میں کئی ایسے فیصلے دیے ہیں جو مصر کے صدر محمد مرسی اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے خلاف گئے ہیں۔
تاہم صدر مرسی کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔
اس سے قبل صدر کے ایک قانونی مشیر محمد غدالہ نے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد ازاں جاری کیے جانے والے صدارتی بیان میں اس امکان کو رد کردیا گیا ہے۔
صدر مرسی کے قانونی مشیر نے اپنے بیان میں صدر اور عدلیہ کے مابین محاذ آرائی کے تاثر کی نفی کرتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ 'شوریٰ کونسل' کو ترمیم شدہ انتخابی قوانین کا مسودہ حتمی جائزے کے لیے آئنی عدالت کو بھیجنا چاہیے تھا۔
خیال رہے کہ مصر کی اعلیٰ عدلیہ میں تعینات بیشتر ججوں کا تقرر سابق صدر حسنی مبارک کے دور میں کیا گیا تھا جنہوں نے اپنے عشروں طویل آمرانہ دورِ اقتدار میں 'اخوان المسلمون' اور دیگر اسلام پسندوں کو ریاست کا دشمن قرار دیتے ہوئے سختی سے دبا رکھا تھا۔