فوج کے سربراہ عبدالفتاح السیسی کا کہنا ہے کہ فوج ان کے بقول ’’دہشت گردوں اور احمقوں‘‘ سے ملک کو بچانے کے لیے اپنا خون بہانے کو تیار ہے۔
مصر میں مسلح افواج نے ملک میں جاری بحران کے تناظر میں ایک ہنگامی اجلاس بلایا ہے۔
خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق یہ اجلاس ایک ایسے وقت طلب کیا گیا ہے جب فوج کی طرف سے سیاست دانوں کو اپنے اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کر کے سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے دی جانے والی 48 گھنٹے کی مہلت چند گھنٹوں بعد ختم ہونے جا رہی ہے۔
ادھر مصر کے سرکاری میڈیا نے خبر دی ہے کہ بدھ کو مظاہرے کے دوران فائرنگ سے کم ازکم 16 افراد ہلاک اور دو سو زخمی ہو گئے۔
وزارت صحت کے ترجمان کے حوالے سے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے سرکاری ٹی وی نے کہا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب قاہرہ یونیورسٹی کے باہر جمع ہونے والے صدر مرسی کے حامیوں پر مسلح افراد نے فائرنگ شروع کر دی۔
لیکن سکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ واقعہ صدر کے حامیوں کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ کا نتیجہ ہے۔
فوج کے سربراہ عبدالفتاح السیسی کا کہنا ہے کہ فوج ان کے بقول ’’دہشت گردوں اور احمقوں‘‘ سے ملک کو بچانے کے لیے اپنا خون بہانے کو تیار ہے۔
اس سے قبل صدر محمد مرسی اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ وہ قانونی طریقے سے اس منصب پر فائز ہوئے ہیں اور وہ اس پر برقرار رہیں گے۔
انھوں نے فوج سے سیاسی بحران میں مداخلت کی دھمکی کو واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
ملک میں حزب مخالف نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق یہ اجلاس ایک ایسے وقت طلب کیا گیا ہے جب فوج کی طرف سے سیاست دانوں کو اپنے اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کر کے سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے دی جانے والی 48 گھنٹے کی مہلت چند گھنٹوں بعد ختم ہونے جا رہی ہے۔
ادھر مصر کے سرکاری میڈیا نے خبر دی ہے کہ بدھ کو مظاہرے کے دوران فائرنگ سے کم ازکم 16 افراد ہلاک اور دو سو زخمی ہو گئے۔
وزارت صحت کے ترجمان کے حوالے سے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے سرکاری ٹی وی نے کہا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب قاہرہ یونیورسٹی کے باہر جمع ہونے والے صدر مرسی کے حامیوں پر مسلح افراد نے فائرنگ شروع کر دی۔
لیکن سکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ واقعہ صدر کے حامیوں کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ کا نتیجہ ہے۔
فوج کے سربراہ عبدالفتاح السیسی کا کہنا ہے کہ فوج ان کے بقول ’’دہشت گردوں اور احمقوں‘‘ سے ملک کو بچانے کے لیے اپنا خون بہانے کو تیار ہے۔
اس سے قبل صدر محمد مرسی اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ وہ قانونی طریقے سے اس منصب پر فائز ہوئے ہیں اور وہ اس پر برقرار رہیں گے۔
انھوں نے فوج سے سیاسی بحران میں مداخلت کی دھمکی کو واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
ملک میں حزب مخالف نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔