ہیومن رائٹس واچ نے طاقت کے ذریعے مظاہروں کو فوری منتشر کرنے کے کسی بھی منصوبے کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پرامن اجتماع کے حق کا احترام کیا جانا چاہیے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے مصر پر زور دیا ہے کہ وہ برطرف کیے گئے صدر محمد مرسی کے حامیوں کے دھرنوں کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال نہ کرے۔
فوج کی حمایت یافتہ مصر کی عبوری حکومت نے رواں ہفتے سکیورٹی حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ اخوان المسلمین کے دھرنوں کو ختم کروائیں جو ان کے بقول قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
جمعہ کو ایک بیان میں ہیومن رائٹس واچ نے طاقت کے ذریعے مظاہروں کو فوری منتشر کرنے کے کسی بھی منصوبے کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پرامن اجتماع کے حق کا احترام کیا جانا چاہیے۔
گروپ کا کہنا تھا کہ مصر کے غیر فوجی رہنماؤں کو ’’متبادل طریقوں‘‘ پر غور کرنا چاہیے کیونکہ ’’پولیس کی طرف سے مستقل طاقت کے بے جا استعمال کے تناظر میں‘‘ ایک اور ’’خون خرابے‘‘ کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
تین جولائی کو محمد مرسی کو فوج کی طرف سے برطرف کیے جانے کے بعد سے مظاہروں اور جھڑپوں میں اب تک 200 سے لگ بھگ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں اکثریت مرسی کے حامیوں کی ہے۔ یہ لوگ صدر کی بحالی اور اسلام پسندوں کا تیار کردہ آئین بحال کرنے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔
جمعرات کو مصر کی وزارت داخلہ نے مرسی کے حامیوں پر دھرنے ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے مظاہرین کو ’’محفوظ راستہ‘‘ فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔ وزارت کا کہنا تھا کہ پولیس کے حکام مظاہرین کے کیمپوں میں داخل ہونے کی حکمت عملی پر غور کررہے ہیں۔
مرسی کی حامی جماعت اخوان المسلمین نے حکومت کی طرف سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے اقدام سے قتل عام کا خدشہ ظاہر کیا ہے جب کہ حکام کا اصرار ہے کہ پولیس کی کارروائی قانون کے دائرے میں رہ کر کی جائے گی۔
یہ معاملہ ایک پیچیدہ صورتحال اختیار کر چکا ہے کیونکہ حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ مظاہرین میں سے کچھ کے پاس ہتھیار ہیں اور وہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اخوان المسلمین نے حکام کے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔
رواں ہفتے کے اوائل میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اعتراف کیا تھا کہ مرسی کے بعض حامی ’’مار پیٹ اور ہتھیاروں کے استعمال سمیت پرتشدد کارروائیوں‘‘ میں ملوث تھے۔ لیکن اس تنظیم کا کہنا تھا کہ ’’اسے بنیاد بنا کر دوسروں کو پرامن احتجاج کرنے سے نہیں روکا جانا چاہیے۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنشنل کے بیان میں حکومت کی طرف سے دھرنوں کو منتشر کرنے کے فیصلے کو تباہی کا سامان پیدا کرنے سے تعبیر کیا گیا۔
فوج کی حمایت یافتہ مصر کی عبوری حکومت نے رواں ہفتے سکیورٹی حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ اخوان المسلمین کے دھرنوں کو ختم کروائیں جو ان کے بقول قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
جمعہ کو ایک بیان میں ہیومن رائٹس واچ نے طاقت کے ذریعے مظاہروں کو فوری منتشر کرنے کے کسی بھی منصوبے کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پرامن اجتماع کے حق کا احترام کیا جانا چاہیے۔
گروپ کا کہنا تھا کہ مصر کے غیر فوجی رہنماؤں کو ’’متبادل طریقوں‘‘ پر غور کرنا چاہیے کیونکہ ’’پولیس کی طرف سے مستقل طاقت کے بے جا استعمال کے تناظر میں‘‘ ایک اور ’’خون خرابے‘‘ کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
تین جولائی کو محمد مرسی کو فوج کی طرف سے برطرف کیے جانے کے بعد سے مظاہروں اور جھڑپوں میں اب تک 200 سے لگ بھگ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں اکثریت مرسی کے حامیوں کی ہے۔ یہ لوگ صدر کی بحالی اور اسلام پسندوں کا تیار کردہ آئین بحال کرنے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔
جمعرات کو مصر کی وزارت داخلہ نے مرسی کے حامیوں پر دھرنے ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے مظاہرین کو ’’محفوظ راستہ‘‘ فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔ وزارت کا کہنا تھا کہ پولیس کے حکام مظاہرین کے کیمپوں میں داخل ہونے کی حکمت عملی پر غور کررہے ہیں۔
مرسی کی حامی جماعت اخوان المسلمین نے حکومت کی طرف سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے اقدام سے قتل عام کا خدشہ ظاہر کیا ہے جب کہ حکام کا اصرار ہے کہ پولیس کی کارروائی قانون کے دائرے میں رہ کر کی جائے گی۔
یہ معاملہ ایک پیچیدہ صورتحال اختیار کر چکا ہے کیونکہ حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ مظاہرین میں سے کچھ کے پاس ہتھیار ہیں اور وہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اخوان المسلمین نے حکام کے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔
رواں ہفتے کے اوائل میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اعتراف کیا تھا کہ مرسی کے بعض حامی ’’مار پیٹ اور ہتھیاروں کے استعمال سمیت پرتشدد کارروائیوں‘‘ میں ملوث تھے۔ لیکن اس تنظیم کا کہنا تھا کہ ’’اسے بنیاد بنا کر دوسروں کو پرامن احتجاج کرنے سے نہیں روکا جانا چاہیے۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنشنل کے بیان میں حکومت کی طرف سے دھرنوں کو منتشر کرنے کے فیصلے کو تباہی کا سامان پیدا کرنے سے تعبیر کیا گیا۔