مصری آرمی چیف کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت 'اخوان المسلمون' کی اعلیٰ قیادت کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور فوجی دستے کسی بھی پرتشدد احتجاج سے سختی سے نمٹیں گے۔
واشنگٹن —
مصر میں فوج نے ملک کے پہلے منتخب اسلام پسند صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے اور ملک میں نئے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔
مصری فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے سرکاری ٹی وی پر براِہ راست نشر کی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں صدر مرسی کی برطرفی کا اعلان کیا۔
پریس کانفرنس کے موقع پر فوجی سربراہ کے ہمراہ اعلیٰ فوجی افسران، حزبِ اختلاف کی لبرل اور سیکولر جماعتوں کے قائدین اور مذہبی راہنما بھی موجود تھے۔
مصری آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ملک کا آئین معطل کردیا گیا ہے اور آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی قیادت میں عبوری حکومت قائم کی جائے گی جو ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ہوگی۔
مصری فوجی سربراہ نے کہا کہ عبوری مدت کے دوران میں ماہرین کی ایک کمیٹی معطل آئین کا جائزہ بھی لے گی جسے اسلام پسندوں کی اکثریت رکھنے والی سابق اسمبلی نے مرتب کیا تھا۔
جنرل السیسی نے ایک قومی مفاہمتی کمیٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا جو ان کے بقول صدر مرسی کے خلاف چلنے والی احتجاجی تحریک کے نوجوان قائدین سے مذاکرات کرے گی۔
مصری فوج کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے مصر کے عوام کی درخواست اور مطالبے پر سیاست میں مداخلت کی ہے اور فوج عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکمران جماعت 'اخوان المسلمون' کی اعلیٰ قیادت کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور فوجی دستے کسی بھی پرتشدد احتجاج سے سختی سے نمٹیں گے۔
آرمی چیف نے کہا کہ صدر مرسی عوام کی توقعات پوری کرنے میں ناکام رہے جس کے باعث فوج کو قومی مفاد میں یہ قدم اٹھانا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ کئی سیاسی حلقوں اور جماعتوں نے فوج کی جانب سے پیش کیے جانے والے عبوری لائحہ عمل سے اتفاق کیا ہے۔
فوجی اقدام کی حمایت کا اعلان
جنرل السیسی کے خطاب کے بعد پریس کانفرنس میں ان کے ہمراہ موجود قاہرہ میں قائم اسلامی دنیا کے معتبر مذہبی ادارے 'جامعہ الازہر' کے سربراہ احمد الطیب اور مصر میں بسنے والے اقلیتی قطبی عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ طوادروس نے بھی فوجی بغاوت کی حمایت کا اعلان کیا۔
پوپ طوادروس نے کہا کہ فوج کی جانب سے پیش کیے جانے والے منصوبے سے سیاسی بصیرت کا اظہار ہوتا ہے جس سے مصر کے تمام باشندوں کا تحفظ یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔
خیال رہے کہ قطبی عیسائی مصر کی کل آبادی کا تقریباً 10 فی صد ہیں۔
پریس کانفرنس میں موجود مصر کی لبرل حزبِ اختلاف کے رہنما اور جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کے سابق سربراہ محمد البرادعی نے بھی فوجی منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا۔
البرادعی نے فوجی منصوبے کو "انقلاب کا نیا جنم" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں حزبِ اختلاف کی لبرل اور سیکولر جماعتوں کے وہ مطالبات پورے ہوگئے ہیں جو وہ صدر مرسی سے کر رہی تھیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق مصری فوج کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ملک میں نئے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ عبوری حکومت کرے گی۔
فوجی ترجمان کے حوالے سے یہ بیان بھی ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہا ہے کہ فوجی دستوں نے صدر مرسی کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے جب کہ حکومت کے بیشتر اہم ذمہ داران بھی حراست میں لیے جاچکے ہیں۔
تحریر اسکوائر پر جشن، اخوان کا احتجاج
فوجی سربراہ کی جانب سے حکومت کی برطرفی کے اعلان کے بعد دارالحکومت قاہرہ کے تحریر اسکوائر پر جمع حکومت مخالف مظاہرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
تحریر چوک پر اتوار سے موجود ہزاروں مظاہرین نے فوج کے حق میں نعرے بازی کی جب کہ اس موقع پر آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔
'رائٹرز' کے مطابق قاہرہ کے ایک نواحی علاقے میں جمع صدر مرسی کے ہزاروں حامی فوج کے اعلان پر سخت احتجاج کر رہے ہیں جب کہ ملک کے کئی دیگر علاقوں میں بھی صدر اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے کارکنوں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات ہیں۔
'رائٹرز' کے مطابق قاہرہ میں ایک مسجد کے نزدیک جمع صدر مرسی کے حامیوں میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد ہے جو روتے ہوئے ان کے حق میں اور فوج کے خلاف نعرے بازی کر رہی ہیں۔
فوجی اقدام مسترد، مزاحمت کا عزم
جنرل السیسی کی پریس کانفرنس کے فوری بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'فیس بک' پر موجود صدر مرسی کے صفحے پر ان سے منسوب ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں فوج کے اعلان کو "فوجی بغاوت" قرار دیتے ہوئے مسترد کیا گیا ہے۔
مصر اور عرب دنیا کی سب سے بڑی اور منظم اسلام پسند جماعت 'اخوان المسلمون' سے تعلق رکھنے والے صدر مرسی کی گرفتاری سے متعلق بھی متضاد اطلاعات ہیں۔
ایک فوجی بیرک میں قائم صدارتی دفتر کے گرد بدھ کی شام خاردار تاریں لگادی گئی تھیں اور فوجی دستوں نے دفتر کی سمت جانے والے راستوں کو رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیا تھا۔
مصر کے سرکاری اخبار 'الاہرام' کے مطابق فوجی افسران نے صدر مرسی کو بدھ کی شام سات بجے مطلع کردیا تھا کہ وہ اب ملک کے صدر نہیں رہے۔
خیال رہے کہ فوج کی جانب سے صدر مرسی کو دی جانے والی 48 گھنٹوں کی مہلت بدھ کی شام پانچ بجے ختم ہوگئی تھی جس کے بعد صدر کے قریبی مشیروں نے فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
مصر کی فوج نے سیاست دانوں کو متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ بدھ کی شام پانچ بجے تک اپنے اختلافات طے کرنے میں ناکام رہے تو فوج "ملک کے مستقبل کے لیے اپنا لائحہ عمل پیش کرے گی"۔
صدر مرسی اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے رہنمائوں نے فوج کے بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کسی بھی فوجی مداخلت کی سخت مزاحمت کرنے کا اعلان کیا تھا۔
فوجی سربراہ کی جانب سے حکومت برطرف کرنے کے اعلان سے قبل صدر محمد مرسی کے مشیر برائے قومی سلامتی نے خدشہ ظاہر کیا تھا سڑکوں اور چوراہوں پر موجود صدر مرسی کے حامیوں کے خلاف فوج اور پولیس پرتشدد ہتھکنڈے استعمال کرسکتی ہے۔
صدر کے مشیر اعصام الحداد نے اپنے 'فیس بک' پیج پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا تھا کہ جمہوریت اور صدارت کے تحفظ کے لیے لاکھوں مصری شہری سڑکوں پر جمع ہیں جو کسی بھی حملے سے خوفزدہ ہو کر اپنا میدان نہیں چھوڑیں گے۔
صدر مرسی کے مشیر نے اپنے بیان میں خبردار کیا کہ موجودہ دور میں رائے عامہ کے خلاف کوئی بھی فوجی بغاوت اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اس کےلیے بے تحاشا خون نہ بہایا جائے۔
صدر مرسی کےایک اور مشیر نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ صدر نے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ وہ فوج کی جانب سے بغاوت کی مزاحمت کریں۔
صدر کے مشیرِ مواصلات یاسر حدارا کے بقول صدر نے قوم سے کہا ہے کہ وہ اپنی مزاحمت کو پرامن رکھیں اور فوج، پولیس اور ایک دوسرے کے خلاف پرتشدد کاروائیاں نہ کریں۔
مصری فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے سرکاری ٹی وی پر براِہ راست نشر کی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں صدر مرسی کی برطرفی کا اعلان کیا۔
پریس کانفرنس کے موقع پر فوجی سربراہ کے ہمراہ اعلیٰ فوجی افسران، حزبِ اختلاف کی لبرل اور سیکولر جماعتوں کے قائدین اور مذہبی راہنما بھی موجود تھے۔
مصری آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ملک کا آئین معطل کردیا گیا ہے اور آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی قیادت میں عبوری حکومت قائم کی جائے گی جو ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ہوگی۔
مصری فوجی سربراہ نے کہا کہ عبوری مدت کے دوران میں ماہرین کی ایک کمیٹی معطل آئین کا جائزہ بھی لے گی جسے اسلام پسندوں کی اکثریت رکھنے والی سابق اسمبلی نے مرتب کیا تھا۔
جنرل السیسی نے ایک قومی مفاہمتی کمیٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا جو ان کے بقول صدر مرسی کے خلاف چلنے والی احتجاجی تحریک کے نوجوان قائدین سے مذاکرات کرے گی۔
مصری فوج کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے مصر کے عوام کی درخواست اور مطالبے پر سیاست میں مداخلت کی ہے اور فوج عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکمران جماعت 'اخوان المسلمون' کی اعلیٰ قیادت کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور فوجی دستے کسی بھی پرتشدد احتجاج سے سختی سے نمٹیں گے۔
آرمی چیف نے کہا کہ صدر مرسی عوام کی توقعات پوری کرنے میں ناکام رہے جس کے باعث فوج کو قومی مفاد میں یہ قدم اٹھانا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ کئی سیاسی حلقوں اور جماعتوں نے فوج کی جانب سے پیش کیے جانے والے عبوری لائحہ عمل سے اتفاق کیا ہے۔
فوجی اقدام کی حمایت کا اعلان
جنرل السیسی کے خطاب کے بعد پریس کانفرنس میں ان کے ہمراہ موجود قاہرہ میں قائم اسلامی دنیا کے معتبر مذہبی ادارے 'جامعہ الازہر' کے سربراہ احمد الطیب اور مصر میں بسنے والے اقلیتی قطبی عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ طوادروس نے بھی فوجی بغاوت کی حمایت کا اعلان کیا۔
پوپ طوادروس نے کہا کہ فوج کی جانب سے پیش کیے جانے والے منصوبے سے سیاسی بصیرت کا اظہار ہوتا ہے جس سے مصر کے تمام باشندوں کا تحفظ یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔
خیال رہے کہ قطبی عیسائی مصر کی کل آبادی کا تقریباً 10 فی صد ہیں۔
پریس کانفرنس میں موجود مصر کی لبرل حزبِ اختلاف کے رہنما اور جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کے سابق سربراہ محمد البرادعی نے بھی فوجی منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا۔
البرادعی نے فوجی منصوبے کو "انقلاب کا نیا جنم" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں حزبِ اختلاف کی لبرل اور سیکولر جماعتوں کے وہ مطالبات پورے ہوگئے ہیں جو وہ صدر مرسی سے کر رہی تھیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق مصری فوج کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ملک میں نئے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ عبوری حکومت کرے گی۔
فوجی ترجمان کے حوالے سے یہ بیان بھی ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہا ہے کہ فوجی دستوں نے صدر مرسی کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے جب کہ حکومت کے بیشتر اہم ذمہ داران بھی حراست میں لیے جاچکے ہیں۔
تحریر اسکوائر پر جشن، اخوان کا احتجاج
فوجی سربراہ کی جانب سے حکومت کی برطرفی کے اعلان کے بعد دارالحکومت قاہرہ کے تحریر اسکوائر پر جمع حکومت مخالف مظاہرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
تحریر چوک پر اتوار سے موجود ہزاروں مظاہرین نے فوج کے حق میں نعرے بازی کی جب کہ اس موقع پر آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔
'رائٹرز' کے مطابق قاہرہ کے ایک نواحی علاقے میں جمع صدر مرسی کے ہزاروں حامی فوج کے اعلان پر سخت احتجاج کر رہے ہیں جب کہ ملک کے کئی دیگر علاقوں میں بھی صدر اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے کارکنوں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات ہیں۔
'رائٹرز' کے مطابق قاہرہ میں ایک مسجد کے نزدیک جمع صدر مرسی کے حامیوں میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد ہے جو روتے ہوئے ان کے حق میں اور فوج کے خلاف نعرے بازی کر رہی ہیں۔
فوجی اقدام مسترد، مزاحمت کا عزم
جنرل السیسی کی پریس کانفرنس کے فوری بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'فیس بک' پر موجود صدر مرسی کے صفحے پر ان سے منسوب ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں فوج کے اعلان کو "فوجی بغاوت" قرار دیتے ہوئے مسترد کیا گیا ہے۔
مصر اور عرب دنیا کی سب سے بڑی اور منظم اسلام پسند جماعت 'اخوان المسلمون' سے تعلق رکھنے والے صدر مرسی کی گرفتاری سے متعلق بھی متضاد اطلاعات ہیں۔
ایک فوجی بیرک میں قائم صدارتی دفتر کے گرد بدھ کی شام خاردار تاریں لگادی گئی تھیں اور فوجی دستوں نے دفتر کی سمت جانے والے راستوں کو رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیا تھا۔
مصر کے سرکاری اخبار 'الاہرام' کے مطابق فوجی افسران نے صدر مرسی کو بدھ کی شام سات بجے مطلع کردیا تھا کہ وہ اب ملک کے صدر نہیں رہے۔
خیال رہے کہ فوج کی جانب سے صدر مرسی کو دی جانے والی 48 گھنٹوں کی مہلت بدھ کی شام پانچ بجے ختم ہوگئی تھی جس کے بعد صدر کے قریبی مشیروں نے فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
مصر کی فوج نے سیاست دانوں کو متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ بدھ کی شام پانچ بجے تک اپنے اختلافات طے کرنے میں ناکام رہے تو فوج "ملک کے مستقبل کے لیے اپنا لائحہ عمل پیش کرے گی"۔
صدر مرسی اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے رہنمائوں نے فوج کے بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کسی بھی فوجی مداخلت کی سخت مزاحمت کرنے کا اعلان کیا تھا۔
فوجی سربراہ کی جانب سے حکومت برطرف کرنے کے اعلان سے قبل صدر محمد مرسی کے مشیر برائے قومی سلامتی نے خدشہ ظاہر کیا تھا سڑکوں اور چوراہوں پر موجود صدر مرسی کے حامیوں کے خلاف فوج اور پولیس پرتشدد ہتھکنڈے استعمال کرسکتی ہے۔
صدر کے مشیر اعصام الحداد نے اپنے 'فیس بک' پیج پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا تھا کہ جمہوریت اور صدارت کے تحفظ کے لیے لاکھوں مصری شہری سڑکوں پر جمع ہیں جو کسی بھی حملے سے خوفزدہ ہو کر اپنا میدان نہیں چھوڑیں گے۔
صدر مرسی کے مشیر نے اپنے بیان میں خبردار کیا کہ موجودہ دور میں رائے عامہ کے خلاف کوئی بھی فوجی بغاوت اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اس کےلیے بے تحاشا خون نہ بہایا جائے۔
صدر مرسی کےایک اور مشیر نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ صدر نے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ وہ فوج کی جانب سے بغاوت کی مزاحمت کریں۔
صدر کے مشیرِ مواصلات یاسر حدارا کے بقول صدر نے قوم سے کہا ہے کہ وہ اپنی مزاحمت کو پرامن رکھیں اور فوج، پولیس اور ایک دوسرے کے خلاف پرتشدد کاروائیاں نہ کریں۔