مصر، جمہوری مستقبل کی جانب گامزن

مصر کے صدر محمد مرسی(فائل)

مصری صدر نے حلف اٹھانے کے محض چھ ہفتوں کے اندر ہی مصری فوج کے کرتا دھرتائوں کو نہ صرف گھر بھیج دیا ہے بلکہ ان کے ماضی کے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے کر صدارتی منصب کی بالادستی بحال کردی ہے۔
آپ نے وہ لطیفہ تو سنا ہوگا کہ ایک دیہاتی اپنی بیمار بھینس کے علاج کےلیے جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر نے دوا کا سفوف دیہاتی کو تھمایا اور طریقہ استعمال بتاتے ہوئے کہا کہ سفوف کو ایک پائپ میں ڈال کے اس کا ایک سرا بھینس کے منہ میں رکھنا اور دوسری طرف سے پھونک مار دینا۔ کچھ دیر بعد دیہاتی اس حال میں بولایا ہوا ڈاکٹر کے پاس پہنچا کہ اس کا چہرہ اور بال دوا کے سفوف سے اٹے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نے حیرانی سے سوال کیا، "کیا ہوا؟"۔ جواب ملا، "ڈاکٹر صاحب! بھینس نے مجھ سے پہلے پھونک ماردی۔"

گزشتہ روز مصری فوجی جنرلوں کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی غیر متوقع کاروائی ہوئی ہے۔ تجزیہ کار اس سوال میں الجھے ہوئے تھے کہ مصر پہ گزشتہ چھ عشروں سے برسرِ اقتدار فوج ملک کی نوآموز جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا کتنا وقت اور موقع دے گی اور آیا ملک کے جمہوری طور پر پہلے منتخب لیکن بے اختیار صدر محمد مرسی اپنی مدت پوری کرپائیں گے یا نہیں۔

لیکن اتوار کی شب ہوا یہ کہ اس بے اختیار صدر نے اپنے وزیرِ دفاع اور مصری فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی، اور ان کے نائب اور فوج کے چیف آف اسٹاف سامی عنان کو نہ صرف ان کے عہدوں سے جبری ریٹائرڈ کردیا بلکہ ان کی جانب سے سول حکومت کے اختیارات سلب کرنے کے احکامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مسلم دنیا اور بالخصوص عرب ممالک کے فوجی جنرلوں کا چراغ پھونکوں سے نہیں بجھایا جاسکتا


تاریخی تجربے سے ثابت ہے کہ مسلم دنیا اور بالخصوص عرب ممالک کے فوجی جنرلوں کا چراغ پھونکوں سے نہیں بجھایا جاسکتا۔ لیکن مصری صدر کے اس فیصلے کو 24 گھنٹے سے زائد وقت گزر جانے اور مصری فوج کی جانب سے کوئی ردِ عمل نہ ہونے کے بعد یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ سول صدر کی یہ پھونک کام دکھا گئی ہے۔

مصر کی تاریخ اور سیاست سے واقفیت رکھنے والوں کے لیے یہ اچانک تبدیلی خاصی غیر متوقع اور حیران کن ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ حیران کن مصری فوج کا ردِ عمل ہے جس نے اپنے ٹاپ جنرلوں کی بظاہر ریٹائرمنٹ لیکن عملاً برطرفی پر 24 گھنٹے گزرنے کے باوجود تاحال کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے اور بظاہر لگتا یہ ہے کہ مصر کے عوامی حلقوں کی طرح فوج نے بھی اس فیصلے کو تسلیم کرلیا ہے۔


برطرف جنرل کون تھے؟

فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی نے گزشتہ ہفتے ہی مصر کے نئے وزیرِ اعظم ہشام قندیل کی کابینہ میں وزیرِ دفاع کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔اس سے قبل 76 سالہ فیلڈ مارشل سابق صدر حسنی مبارک کے دورِ حکومت میں بھی 20 سال تک وزیرِ دفاع کے فرائض انجام دے چکے ہیں اور ان کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔

بائیں سے دائیں - فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی، صدر محمد مرسی اور جنرل سامی عنان


گزشتہ سال عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں صدر حسنی مبارک کے استعفی کے بعد طنطاوی نے مسلح افواج کی سپریم کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے اقتدار سنبھال لیا تھا۔رواں برس جون میں صدر مرسی کو اقتدار سونپنے تک انہوں نے سربراہِ مملکت کی حیثیت سے فرائض انجام دیے ۔

چونسٹھ سالہ سامی عنان بھی سابق صدر مبارک کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ اتوار کی شب مصری صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیہ کے مطابق صدر مرسی نے فیلڈ مارشل طنطاوی کی جگہ 57 سالہ جنرل عبدالفتح السیسی کو فوج کا نیا سربراہ اور وزیرِ دفاع مقرر کیا ہے۔ جب کہ 56 سالہ جنرل صدقی سید احمد جنرل عنان کی جگہ مصری فوج کے چیف آف اسٹاف کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔

صدر مرسی نے اتوار کی شب کئی دیگر اہم فیصلے بھی کیے ہیں جن میں بحریہ، فضائی دفاع اور فضائیہ کے کمانڈروں کی ریٹائرمنٹ اورمختلف سول و فوجی عہدوں پر تعیناتیاں شامل ہیں۔


اخوان اور فوج کے تعلقات

مصر کے صدر کا تعلق اسلام پسند جماعت 'اخوان المسلمون' سے ہے اور وہ جون میں ہونے والے مصر کے پہلے آزادانہ انتخابات میں صدر منتخب ہوئے تھے۔

اخوان کو مصر کی سب سے منظم اور طاقت ور سیاسی جماعت سمجھا جاتا ہے اور تنظیم کی شاخیں عرب دنیا کے دیگر ممالک میں بھی سرگرم ہیں۔ لیکن اخوانیوں اور مصری فوج کے درمیان 1950ء کی دہائی سے ہی کشیدگی رہی ہے اور ماضی کے فوجی صدور اخوان کے خلاف ریاستی طاقت اور تشدد کا بھرپور استعمال کرتے رہے ہیں۔

صدر مبارک کے بعد فیلڈ مارشل طنطاوی نے فوجی کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے عوامی اور بین الاقوامی دبائو کے باعث ملک میں نئے پارلیمانی اور جمہوری انتخابات کرانے کا وعدہ تو پورا کیا، لیکن اخوان سے ازلی مناقشت کے پیشِ نظر وہ دودھ میں مینگنیاں ڈالنا ہرگز نہیں بھولے۔

صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے سے عین قبل مصر کی اعلیٰ عدالت نے اس نومنتخب پارلیمان کو تحلیل کردیا تھا جس میں اخوان اور دیگر اسلام پسندوں کو واضح برتری حاصل تھی۔ بعد ازاں صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے سے قبل فوجی کونسل نے صدر کے کئی اختیارات ختم کردیے تھے اور عملاً صدر کا عہدہ نمائشی رہ گیا تھا۔

تجزیہ کاروں کی اکثریت کی رائے تھی کہ فوجی کونسل کے ان اقدامات کا مقصد اخوان کو صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ پر مجبور کرنا تھا۔ لیکن اخوان کے رہنما فوج کے ساتھ محاذ آرائی سے مسلسل نہ صرف گریز کرتے رہے بلکہ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر فوجی اقدامات کو چیلنج کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
فیلڈ مارشل طنطاوی نے فوجی کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے عوامی اور بین الاقوامی دبائو کے باعث ملک میں نئے پارلیمانی اور جمہوری انتخابات کرانے کا وعدہ تو پورا کیا، لیکن وہ دودھ میں مینگنیاں ڈالنا ہرگز نہیں بھولے


اخوان کی اس نرم روی کے باعث امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ وہ مصری سیاست پر فوج کے غلبے کے آگے بند تو ضرور باندھیں گے لیکن یہ عمل محتاط سفارت کاری کے کئی برسوں پر محیط ہوگا تاکہ فوج کسی بھی مرحلے پر ردِ عمل میں کوئی انتہائی قدم اٹھا کر انہیں گھر نہ بھیج دے۔

تاہم مصری صدر نے اپنے حالیہ اقدامات سے ان تمام اندازوں کو یکسر غلط ثابت کردیا ہے اور "سو سنار کی۔۔" کے بجائے "ایک لوہار کی۔۔" سے کام لیا ہے۔ انہوں نے حلف اٹھانے کے محض چھ ہفتوں کے اندر ہی مصری فوج کے کرتا دھرتائوں کو نہ صرف گھر بھیج دیا ہے بلکہ ان کے ماضی کے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے کر صدارتی منصب کی بالادستی بحال کردی ہے۔


مصری فوج خاموش کیوں؟

مصری صدر نے جنرل محمد العصر کو نائب وزیرِ دفاع تعینات کیا ہے جنہوں نے اپنی تعیناتی کے بعد خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے گفتگو میں کہا کہ صدر نے طنطاوی کو ہٹانے کا فیصلہ خود ان سے اور فوجی کونسل سے مشاورت کے بعد کیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق 1952ء میں بادشاہت کےخاتمے کے بعد سے مصر پر حکمرانی کرنے والی فوج میں صدر مرسی کے فیصلے پر تاحال کسی مزاحمت کے آثار نظر نہیں آتے۔ 'رائٹرز' کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ فوج کے جونیئر جرنیل اور نچلی سطح کے افسران اس تبدیلی کی حمایت کر رہے ہیں کیوں کہ اس کے نتیجے میں ان کے آگے بڑھنے اور فوج کی قیادت نئی نسل کو منتقل ہونے کا امکان روشن ہوا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ فوج کے جونیئر جرنیل اور نچلی سطح کے افسران اس تبدیلی کی حمایت کر رہے ہیں
رائٹرز


اتوار کی شب مصر کی سرکاری ٹیلی ویژن پر نئے وزیرِ دفاع عبدالفتح السیسی کی تقریبِ حلف برداری نشر کی گئی تھی جس میں انہوں نے مصری قوم اور صدارتی نظام کا تحفظ، ملکی آئین اور قوانین کا احترام اور ملکی سرحدوں اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کی قسم اٹھائی۔

اس ابتدائی ردِ عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر کے اس اچانک حکم نامے نے مصری فوج میں کسی بڑی بے چینی کو جنم نہیں دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ جہاں مصر میں جمہوریت کی مکمل بحالی کے لیے بین الاقوامی دبائو ہے وہیں ملک کی داخلی صورتِ حال بھی مصری فوج کی کسی محاذ آرائی کے لیے سازگار نہیں۔

صدر مرسی کو فوج میں حالیہ تبدیلیوں کا موقع مصر کی اسرائیل کے ساتھ واقع سرحد پر گزشتہ ہفتے پیش آنے والے اس واقعے نے فراہم کیا ہے جس میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 16 مصری فوجیوں کو ہلاک کردیا تھا۔

واقعے پر سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے مصری صدر نے فوری طور پر انٹیلی جنس چیف مراد موافی کو جبری ریٹائر اور سرحدی صوبے شمالی سینا کے گورنر عبدالوہاب مبروک کو برطرف کرتے ہوئے فوج اور خفیہ اداروں کی تنظیمِ نو کا حکم دیا تھا۔

فوجی اہلکاروں کی اتنی بڑی تعداد کی ہلاکت کے باعث مصری فوج دبائو میں ہے اور اس نے یہ فیصلے بلا چون و چرا تسلیم کرلیے۔ ساتھ ہی تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنے کے سبب عوامی رائے عامہ بھی بڑی حد تک مصری فوج کے خلاف ہے۔

مصری صدر نے انہی حالات کا فائدہ اٹھایا ہے اوراس عالمی اور داخلی دبائو کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جو اب تک تو کامیاب نظر آتی ہے۔


مصری معاشرے کا ردِ عمل

مصر کے بیشتر اخبارات نے صدر مرسی کی جانب سے فوجی سربراہان کی برطرفی کے فیصلے کو "طاقت کے حصول کی جنگ میں" صدر کی فتح قرار دیا ہے۔

صدر کے ہزاروں حامیوں نے دارالحکومت قاہرہ کے اس تحریر چوک پر جمع ہوکر ان کے فیصلے کے حق میں مظاہرہ بھی کیا ہے جو گزشتہ برس حکومت مخالف احتجاجی تحریک کا مرکز بنا رہا تھا۔

فیصلے کے بعد پیر کو قاہرہ کی اسٹاک ایکسچینج میں بھی تیزی رہی جو اس با ت کی علامت ہے کہ ملک کے کاروباری حلقے بھی فوجی بالادستی کے خلاف صدر کے اقدامات سے مطمئن ہیں اور ملک کے سیاسی مستقبل پر ان کا اعتماد بحال ہورہا ہے۔

موجودہ حالات سے بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ مصر مشرقِ وسطیٰ کا ترکی بننے جارہا ہے۔ لیکن اس کی یہ پیش رفت کتنی کامیاب رہتی ہے، اس کا دارومدار 'اخوان المسلمون' کی آئندہ کی حکمتِ عملی اور مصری فوج کے ردِ عمل پر ہوگا۔