قبل ازیں صدر محمد مرسی نے حزب مخالف سے معاملات طے کرنے کے لیے فوج کی طرف سے دیا جانے والا 48 گھنٹے کا الٹی میٹم مسترد کر دیا تھا۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے مصر کے سربراہ مملکت محمد مرسی پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے مخالف مظاہرین کے تحفظات کا خیال رکھیں۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر اوباما نے جناب مرسی سے ٹیلی فون پر گفتگو میں کہا کہ امریکہ مصر میں جمہوری عمل کی حمایت کرتا ہے ناکہ کسی ایک جماعت یا گروپ کی۔
امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ انھیں مصر میں تشدد خصوصاً خواتین کے خلاف جنسی تشدد پر سخت تشویش ہے۔
قبل ازیں صدر محمد مرسی نے حزب مخالف سے معاملات طے کرنے کے لیے فوج کی طرف سے دیا جانے والا 48 گھنٹے کا الٹی میٹم مسترد کر دیا تھا۔
صدارتی دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ جناب مرسی ’’شہریوں کی تقسیم کو مزید گہرا کرنے والے بیانات‘‘ سے قطع نظر قومی مصالحت کے اپنے منصوبے پر کاربند رہیں گے۔
ملک میں کئی روز تک جاری رہنے والے پرتشدد مظاہروں اور جھڑپوں میں 16 افراد کی ہلاکت کے بعد پیر کو وزیردفاع جنرل عبدالفتاح السیسی نے حکومت اور حزب مخالف کو معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے کے لیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بصورت دیگر فوج مصر کے مستقبل سے متعلق اپنا لائحہ عمل پیش کرے گی۔
منگل کو مصری کے ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ وزیر خارجہ محمد کمال امر نے استعفیٰ دے دیا۔ اتوار سے مستعفی ہونے والے یہ چوتھے وزیر ہیں۔
حزب مخالف نے صدر مرسی کو مستعفی ہونے کے لیے مقامی وقت کے مطابق منگل کی شام پانچ بجے تک کی مہلت دے رکھی ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے بھی ایک روز قبل دورہ تنزانیہ کے موقع پر کہا تھا کہ دنیا مصر کی صورتحال دیکھ رہی ہے اور اس بارے میں متفکر ہے۔
’’مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم سب کو اس پر تشویش ہے اور ہم بہت قریب سے اس کا جائزہ لیتے رہے ہیں۔ مصر میں ہمارا عزم کبھی بھی کسی خاص شخصیت یا جماعت کے لیے نہیں رہا۔ ہمارا عزم (جمہوری) عمل کے لیے رہا ہے۔‘‘
جناب اوباما نے صدر مرسی اور حزب مخالف کو اپنے اختلافات مذاکرات سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔
اتوار کو لاکھوں لوگ مصر کی سڑکوں پر نکل آئے جو کہ 2011ء کی تحریک کے بعد حکومت مخالف سب سے بڑے مظاہرے تھے۔ اس تحریک کے نتیجے میں صدر حسنی مبارک کو اپنا اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر اوباما نے جناب مرسی سے ٹیلی فون پر گفتگو میں کہا کہ امریکہ مصر میں جمہوری عمل کی حمایت کرتا ہے ناکہ کسی ایک جماعت یا گروپ کی۔
امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ انھیں مصر میں تشدد خصوصاً خواتین کے خلاف جنسی تشدد پر سخت تشویش ہے۔
قبل ازیں صدر محمد مرسی نے حزب مخالف سے معاملات طے کرنے کے لیے فوج کی طرف سے دیا جانے والا 48 گھنٹے کا الٹی میٹم مسترد کر دیا تھا۔
صدارتی دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ جناب مرسی ’’شہریوں کی تقسیم کو مزید گہرا کرنے والے بیانات‘‘ سے قطع نظر قومی مصالحت کے اپنے منصوبے پر کاربند رہیں گے۔
ملک میں کئی روز تک جاری رہنے والے پرتشدد مظاہروں اور جھڑپوں میں 16 افراد کی ہلاکت کے بعد پیر کو وزیردفاع جنرل عبدالفتاح السیسی نے حکومت اور حزب مخالف کو معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے کے لیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بصورت دیگر فوج مصر کے مستقبل سے متعلق اپنا لائحہ عمل پیش کرے گی۔
منگل کو مصری کے ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ وزیر خارجہ محمد کمال امر نے استعفیٰ دے دیا۔ اتوار سے مستعفی ہونے والے یہ چوتھے وزیر ہیں۔
حزب مخالف نے صدر مرسی کو مستعفی ہونے کے لیے مقامی وقت کے مطابق منگل کی شام پانچ بجے تک کی مہلت دے رکھی ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے بھی ایک روز قبل دورہ تنزانیہ کے موقع پر کہا تھا کہ دنیا مصر کی صورتحال دیکھ رہی ہے اور اس بارے میں متفکر ہے۔
’’مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم سب کو اس پر تشویش ہے اور ہم بہت قریب سے اس کا جائزہ لیتے رہے ہیں۔ مصر میں ہمارا عزم کبھی بھی کسی خاص شخصیت یا جماعت کے لیے نہیں رہا۔ ہمارا عزم (جمہوری) عمل کے لیے رہا ہے۔‘‘
جناب اوباما نے صدر مرسی اور حزب مخالف کو اپنے اختلافات مذاکرات سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔
اتوار کو لاکھوں لوگ مصر کی سڑکوں پر نکل آئے جو کہ 2011ء کی تحریک کے بعد حکومت مخالف سب سے بڑے مظاہرے تھے۔ اس تحریک کے نتیجے میں صدر حسنی مبارک کو اپنا اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔