مصری حکام کا کہنا ہے کہ سابق صدر حسنی مبارک کو علالت کے باعث سیاحتی شہر شرم الشیخ کے ایک اسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں وہ اپنی رہائش گاہ پر نظر بند تھے۔
مصری صدر کی علالت کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئی ہیں۔ اپنے 30 سالہ طویل اقتدار کے آخری برسوں میں حسنی مبارک کئی طرح کے طبی مسائل کا شکار رہے تھے اور اس دوران جرمنی میں ان کے پتے کا آپریشن بھی کیا گیا تھا۔
حسنی مبارک مصر میں 18 روز تک جاری رہنے والے عوامی مظاہروں کے بعد ملکی انتظام افواج کو سونپ کر 11 فروری کو صدارت سے دستبردار ہوگئے تھے۔
اس سے قبل مغربی میڈیا میں آنے والی اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ حسنی مبارک پر عائد کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرنےو الے تفتیشی اہلکار 82 سالہ سابق صدر سے منگل کے روز ملاقات کرکے پوچھ گچھ کرینگے۔
واضح رہے کہ مصر میں حسنی مبارک کے خلاف قانونی کاروائی کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے اور ان کے اقتدار کے خلاف احتجاجی تحریک کا مرکز رہنے والے دارالحکومت قاہرہ کے تحریر اسکوائر پر گزشتہ ہفتے لاکھوں افراد نے جمع ہوکر سابق صدر کے خلاف مقدمات چلانے کے حق میں مظاہرہ کیا تھا۔
اس سے قبل اتوار کے روز پبلک پراسیکیوٹرز کی جانب سے سابق صدر کو سرکاری خزانے کے بے جا استعمال اور اپنے دورِ قتدار کے آخری ایام کے دوران احتجاجی مظاہرین کے قتل کے احکامات جاری کرنے جیسے الزامات کی تحقیقات کیلیے طلب کیا گیا تھا۔
پراسیکیوٹر آفس سے جاری ہونے والے ایک اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کیلیے سابق صدر کے ہمراہ ان کے صاحبزادوں، جمال اور اعلیٰ کو بھی طلب کیا گیا ہے۔
بعد ازاں تفتیشی اہلکاروں کی جانب سے جاری کیے گئے ایک دوسرے اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ سابق مصری صدر کے خلاف جاری کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کے سلسلے میں سابق وزیرِاعظم احمد نظیف کو بھی 15 روز کیلیے حراست میں لے لیا گیا ہے۔
حسنی مبارک کا موقف ہے کہ ان کے خلاف عائد کردہ الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کے بقول انہیں "اپنی اور اپنے خاندان کی ساکھ کا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے"۔
"العربیہ" نیوز چینل کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں سابق مصری صدر کا کہنا تھا کہ کہ وہ اپنی دولت کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات کے سلسلے میں حکام کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ ہیں۔ انہوں نے بیرونِ ملک اپنے بینک کھاتوں اور بڑی جائیدادوں کی موجودگی کی بھی تردید کی۔
مذکورہ انٹرویو اتوار کے روز نشر کیا گیا تھا اور نظربندی کی زندگی گزارنے والے سابق مصری صدر کی جانب سے اقتدار سے علیحدگی کے بعد بیرونی دنیا سے یہ پہلا براہِ راست رابطہ تھا۔