مصر کے انتخا ب میں پہلا مقام حاصل کرنے والی پارٹی کی طرف سے مسلسل دو دلیلیں پیش کی جاتی ہیں جن میں بظاہر تضاد موجود ہے۔ اول تو یہ کہ اخوان المسلمین ملک کے مسائل کے حل میں سب کو ساتھ لے کر چلے گی ۔ دوم یہ کہ ان مسائل کا جواب ان کے اس نعرے میں موجود ہے کہ تمام مسائل کا حل اسلام میں ہے ۔
اس گروپ کے نظریے کی بنیاد یہ ہے کہ گھریلو زندگی سے لے کر قومی حکومت تک، ہر چیز میں اسلام کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ لیکن اگر اس ہفتے کے دوران ووٹنگ کے تیسرے مرحلے کے بعد اخوان کو قطعی اکثریت حاصل ہو گئی، تو اس نعرے سے مصر کے عیسائیوں، سیکولر اور دوسرے خیالات رکھنے والے لوگوں کو جو تشویش ہوگی، اخوان کی کوشش ہے کہ اسے دور کیا جائے ۔
اخوان کی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے نائب سربراہ اعصام الریان نے وائس آف امریکہ سے کہا کہ ان کی پارٹی جمہوریت کے ساتھ اپنی وابستگی سے رو گردانی نہیں کرے گی، چاہے اس کے لیے انہیں کٹر قدامت سلفیوں سمیت دوسرے اسلامی گروپوں کا ساتھ کیوں نہ چھوڑنا پڑے ۔’’ہمارا کسی گروپ سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہم مختلف سیاسی گروپوں کی نمائندہ 10 سے زیادہ پارٹیوں کے ساتھ اپنے جمہوری اتحاد پر ڈٹے رہیں گے ۔ ہم سلفیوں کی عزت کرتے ہیں کیوں کہ اب تک وہ تقریباً 80 نشستیں جیت چکے ہیں، اور تیسرے دور میں مزید سیٹیں حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم لوگوں کی رائے کا احترام کرتے ہیں لیکن ہم اپنے اتحاد یوں کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
یہ کوئی آسان اتحاد نہیں ہے کیوں کہ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے لیڈر، سب کو ساتھ لے کر چلنے کی باتوں کے باوجود، کسی عورت کو یا قبطی عیسائی کو صدر کا عہدے دینے کے خیال کو مسترد کرتے ہیں۔
لیکن اخوان کی عملیت پسندی کی تاریخ بہت طویل ہے ۔ پرانی حکومت نے ان پر پابندی لگا دی تھی لیکن انھوں نے بڑے پیمانے پر بہت سےاچھے کام کیے اور عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کر لیں۔ اگرچہ گذشتہ سال کی تحریک انھوں نے شروع نہیں کی تھی، لیکن انھوں نے اس کے نتائج کو قبول کر لیا ہے ۔
اریان کہتے ہیں کہ اب فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے ایجنڈے کی بنیاد قومی اتحاد ہے، کوئی نظریہ نہیں۔’’ہماری بڑی خواہش ہے کہ انقلاب کے دوران جس قومی یکجہتی کا مظاہرہ ہوا تھا، وہ ملک کی تعمیر کے لیے جاری رہے۔ لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمینٹ میں تمام سیاسی بلاک ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت مل جل کر کام کریں جس میں اولین ترجیح مصر کو لوگوں کو دی جائے، کسی سیاسی ایجنڈے کو نہیں۔‘‘
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس موقف سے عملیت پسندی کے ایک اور پہلو کا اظہار ہوتا ہے ۔ انقلاب کے بعد سے اب تک، مصر کے لوگوں کو اب تک کوئی ٹھوس فوائد نظر نہیں آئے ہیں، اور انھوں نئی پارلیمینٹ سے حقیقی تبدیلی کی بہت اونچی توقعات وابستہ کر لی ہیں۔
اخبار Shorouk کے کالم نگار فاہمی ہاویدی کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اگر پیش رفت سست رہتی ہے ، تو فریڈم اور جسٹس پارٹی کو اپنی بچت کے لیے سہارے کے ضرورت پڑ سکتی ہے۔’’وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دوسرے گروپوں کی مدد کے بغیر جو یا تو لبرل ہیں یا سیکولر ہیں، وہ یہ ذمہ داری تنہا نہیں اٹھا سکتے۔ لہٰذا وہ سب مل کر ہی یہ ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں۔ کوئی ایک گروپ مستقبل میں یہ ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔‘‘
شاید مستقبل قریب میں ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ یہ پارٹیاں کس حد تک اپنی طاقت استعمال کر سکتی ہیں۔ اگر چہ دوسرے عناصر سڑکوں پر نکل آئے ہیں، اور انھوں نے فو ج سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن اب تک اخوان نے بڑی حد تک فوج کے عبوری لیڈروں کا ساتھ دیا ہے۔
لیکن حالیہ مہینوں کے دوران اختلافات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں، خاص طور سے نئے آئین کی تیاری کے بارے میں۔ فوجی کونسل نے وعدہ کیا تھا کہ یہ کام پارلیمانی کمیٹی پر چھوڑ دیا جائے گا، لیکن اب وہ ایک خصوصی مشاورتی گروپ کی باتیں کر رہی ہے جس میں جنرلوں کا عمل دخل زیادہ ہوگا ۔
یہ ایسی جنگ ہے جو اگلے چند ہفتوں میں سامنے آ جائے گی، جب 23جنوری کو پارلیمان کے نو منتخب ایوانِ زیریں کا اجلاس ہو گا۔
ایک وسیع البنیاد اور مختلف خیالات رکھنے والے لوگوں پر مشتمل حکومت کے بارے میں طویل مدت کے لیے اخوان کا رویہ چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو، فی الحال، انہیں ہر اس اتحادی کی ضرورت ہو گی جو ان کے ساتھ ملنے کو تیار ہو۔