قاہرہ کے التحریر اسکوائر میں صدر حسنی مبارک کے خلاف مظاہرے میں شامل ہزاروں افراد اب بھی موجود ہیں اور یہ تین دہائیوں سے برسر اقتدار صدر کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مصر میں مظاہروں کو بارہ دن ہو گئے ہیں اورہفتے کی صبح التحریر اسکوائر میں فائرنگ بھی سنی گئی لیکن اس میں کسی ہلاکت کی اطلاعات نہیں ملی ہیں۔ صدر حسنی مبارک نے موجودہ صورتحال پر نئی کابینہ سے صلاح مشورہ کیا ہے۔
مصرمیں سکیورٹی حکام نے بتایا ہے کہ ہفتے کو ایک زوردار دھماکے سے اردن تک جانے والی گیس پائپ لائن کو نقصان پہنچا ہے۔ حکام نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ دھماکے سے اسرائیل کو جانے والی پائپ لائن تبا ہ ہوئی ہے۔
حکام اس کارروائی کا الزام بیرونی عناصر پر عائد کرتے ہیں ۔ شمالی صنائی کے علاقے میں جہاں یہ دھماکا ہوا وہاں بڑے پیمانے پر آگ بھڑک اُٹھی تھی۔
وزیراعظم احمد شفیق نے جمعہ کو وعدہ کیا تھا کہ التحریر اسکوائر میں جمع مظاہرین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ جمعہ کے مظاہرے میں عرب لیگ کے سربراہ امر موسیٰ نے بھی شرکت کی تھی اور اس دن کو ”یوم رخصت “ کے طور پر منایا گیا۔
فوج نے صدر مبارک کے حامیوں کوجمعہ کے روز التحریر اسکوائر میں داخل ہونے سے روک دیا تھا تاہم اُنھوں نے شہر کے مختلف علاقوں میں صدر کے حق میں مظاہر ہ کیااور اسے ”یوم وفا“ کے طور پر منایا۔
بدھ کے روز صدر مبارک کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جس میں متعدد افرا د ہلاک اور لگ بھگ آٹھ سو زخمی ہو گئے تھے۔ وزیراعظم احمد شفیق نے ان جھڑپوں پر قوم سے معافی مانگی تھی اور اس واقعے کی تحقیقات کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔