مصر میں سکیورٹی حکام نے بتایا ہے کہ ہنگاموں سے متاثرہ علاقوں میں پولیس نے اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھالنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔
ملک میں گذشتہ ایک ہفتے سے جاری حکومت مخالف احتجاج کے دوران مظاہرین کے ساتھ پرتشدد جھڑپوں کے بعد دو روز قبل پولیس کو بعض علاقوں سے نکال لیا گیا تھا۔
تاہم حکام نے کہا ہے کہ اب پولیس اہلکاروں کو اس ہدایت کے ساتھ دوبارہ تعینات کیا جا رہا ہے کہ وہ مظاہرین سے نا الجھیں۔
دارالحکومت قاہرہ اور اسکندریہ شہر سمیت مصر کے متعدد علاقوں میں ہنگامہ آرائی اور لوٹ مار کے واقعات کے بعد یہاں فوجی دستے بھی موجود ہیں۔ فوجیوں کی بڑی تعداد جنھیں ٹینکوں کی مدد بھی حاصل ہے قاہرہ میں بینکوں، سرکاری دفاتر اور وزارت داخلہ کی مرکزی عمارت کی حفاظت پر معمور ہیں۔
گذشتہ شب مظاہرین نے مسلسل تیسری رات بھی کرفیو کی خلاف ورزی کی اور صدر حسنی مبارک کے 30 سال اقتدار کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اُن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
حکام کے مطابق گذشتہ منگل سے جاری احتجاجی مظاہروں کے دوران 100 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
حال ہی میں تشکیل پانے والے حکومت مخالف جماعتوں کے اتحاد نے محمد البرادعی کو قومی حکومت بنا کر فوج سے رابطہ کرنے کی تجویز دی ہے۔