حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مصر کے موجودہ حکمرانوں پر ظلم و ستم کا مرتکب ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں احتجاجی مظاہرین کی اُمیدوں کو ’’کچل دیا گیا ہے‘‘۔
منگل کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بے رحمی کے بعض حالیہ واقعات سابق صدر حسنی مبارک کے دور کی نسبت زیادہ سنگین تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق فروری میں بغاوت کے نتیجے میں حسنی مبارک کی حکومت کا تختہ اُلٹے جانے کے بعد اقتدار میں آنے والی مسلح افواج کی سپریم کونسل نے ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال بہتر بنانے کے کھوکھلے وعدے کیے ہیں۔
حکومت کے مخالفین بشمول قاہرہ کے التحریر اسکوائر پر احتجاج میں حصہ لینے والوں کے خلاف گزشتہ چند روز کے دوران کی گئی کارروائیوں میں متعدد افراد ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں نے ہزاروں شہریوں کے خلاف مقدمات چلائے ہیں جب کہ ایمرجنسی قوانین میں بھی توسیع کی گئی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ فوج کی زیر حراست افراد پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے جب کہ مظاہرین پر حملوں کے لیے سکیورٹی فورسز کی جانب سے مسلح ٹھگوں کو استعمال کرنے کی اطلاعات بھی مسلسل سامنے آ رہی ہیں۔
فوجی کونسل نے تصدیق کی ہے کہ اگست کے اختتام تک فوجی عدالتوں میں تقریباً 12,000 شہریوں پر مقدمات چلائے گئے، اور ان میں سے کم از کم 13 کو موت کی سزا سنائی گئی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے الزام لگایا ہے کہ عدالتی کارروائی غیر منصفانہ تھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے قائم مقام ڈائیریکٹر فلپ لوتھر نے کہا ہے کہ ’’مصری فوج سکیورٹی کی آڑ میں وہی اقدامات جاری نہیں رکھ سکتی جو حسنی مبارک کے دور میں دیکھے گئے۔‘‘