حکومتی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ قتل و غارت میں ملوث، ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کے ساتھ مصالحت نہیں کی جائے گی۔
مصر میں فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمین پر پابندی لگانے کی تجویز پر غور کر رہی ہے جس سے برطرف صدر محمد مرسی کی اس حامی جماعت کے سیاسی وجود کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
گزشتہ ماہ ملک کے پہلے جمہوری منتخب صدر کو برطرف کیے جانے بعد سے قائم عبوری حکومت اپنی عملداری قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس کا کہنا ہے کہ عرب دنیا کی اکثریتی آبادی والا ملک دہشت گردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔
گزشتہ چار دنوں میں مرسی کے حامیوں کے ملک میں ہونے والے مظاہروں کو روکنے اور انھیں منتشر کرنے کی کارروائیوں میں سکیورٹی فورسز کی ان سے جھڑپیں بھی ہوئی جن میں اب تک سات سو افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ حکام کے مطابق اس میں 57 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
سکیورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین پر طاقت کے استعمال پر مصری حکومت کو مغربی قوتوں کی طرف سے مذمت کا سامنا کرنا پڑا جب کہ بعض عرب اتحادیوں بشمول سعودی عرب نے اس کی حمایت کی ہے۔ ان اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ اخوان کے نظریات کا پھیلاؤ خیلج میں شہنشاہیت کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ایک بار پھر مصر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہفتہ کو دیر گئے ایک بیان میں انھوں نے پرتشدد مظاہروں اور مظاہرین کے خلاف’’ طاقت کے استعمال‘‘ کو بند کرنے پر زور دیا۔
مسٹر بان کا کہنا تھا کہ مزید ہلاکتوں سے بچنا مصر کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
اس سے قبل سکیورٹی فورسز نے قاہرہ میں الفتح مسجد سے مرسی کے حامیوں سے خالی کروا لیا۔ جمعہ کو ’یوم غضب‘ کے موقع پر ہونے والی جھڑپوں اور سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران سینکڑوں افراد نے یہاں پناہ لے رکھی تھی۔
مصر کی عبوری حکومت ان مظاہروں کو بھڑکانے کا الزام اخوان المسلمین پر عائد کرتی ہے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق اخوان کے 250 حامی اس بحران سے منسلک ہونے کے شبہ میں زیر تفتیش ہیں۔
حکومتی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ قتل و غارت میں ملوث، ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کے ساتھ مصالحت نہیں کی جائے گی۔
گزشتہ ماہ ملک کے پہلے جمہوری منتخب صدر کو برطرف کیے جانے بعد سے قائم عبوری حکومت اپنی عملداری قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس کا کہنا ہے کہ عرب دنیا کی اکثریتی آبادی والا ملک دہشت گردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔
گزشتہ چار دنوں میں مرسی کے حامیوں کے ملک میں ہونے والے مظاہروں کو روکنے اور انھیں منتشر کرنے کی کارروائیوں میں سکیورٹی فورسز کی ان سے جھڑپیں بھی ہوئی جن میں اب تک سات سو افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ حکام کے مطابق اس میں 57 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
سکیورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین پر طاقت کے استعمال پر مصری حکومت کو مغربی قوتوں کی طرف سے مذمت کا سامنا کرنا پڑا جب کہ بعض عرب اتحادیوں بشمول سعودی عرب نے اس کی حمایت کی ہے۔ ان اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ اخوان کے نظریات کا پھیلاؤ خیلج میں شہنشاہیت کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ایک بار پھر مصر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہفتہ کو دیر گئے ایک بیان میں انھوں نے پرتشدد مظاہروں اور مظاہرین کے خلاف’’ طاقت کے استعمال‘‘ کو بند کرنے پر زور دیا۔
مسٹر بان کا کہنا تھا کہ مزید ہلاکتوں سے بچنا مصر کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
اس سے قبل سکیورٹی فورسز نے قاہرہ میں الفتح مسجد سے مرسی کے حامیوں سے خالی کروا لیا۔ جمعہ کو ’یوم غضب‘ کے موقع پر ہونے والی جھڑپوں اور سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران سینکڑوں افراد نے یہاں پناہ لے رکھی تھی۔
مصر کی عبوری حکومت ان مظاہروں کو بھڑکانے کا الزام اخوان المسلمین پر عائد کرتی ہے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق اخوان کے 250 حامی اس بحران سے منسلک ہونے کے شبہ میں زیر تفتیش ہیں۔
حکومتی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ قتل و غارت میں ملوث، ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کے ساتھ مصالحت نہیں کی جائے گی۔