مصر میں ایک ایسے وقت میں صدارتی الیکشن ہو رہا ہے جب اس کے پڑوس میں جاری غزہ کی جنگ مصر سمیت عالمی منظرنامے پر چھائی ہوئی ہے۔
اس وقت مصر حالیہ تاریخ میں اپنے بد ترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے جس میں مقامی کرنسی کی قدر تقریباً نصف ہوجانے کے بعد برآمدات کی بڑھتی لاگت کے باعث مہنگائی کی شرح 40 فی صد سے تجاوز کرگئی ہے۔
ان حالات کے باعث معاشی ابتری مصر میں تحفظات کا بنیادی نقطہ ہے۔
حالیہ معاشی بحران سے قبل ہی ملک کی 10 کروڑ سے زائد آبادی میں سے دو تہائی افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے تھے۔
اتوار کو مصر میں پولنگ کا آغاز ہوچکا ہے جو منگل تک ہر روز صبح نو بجے سے شب نو بجے تک جاری رہے گی جب کہ نتائج کا سرکاری اعلان 18 دسمبر کو کیا جائے گا۔
مصر میں رجسٹرڈ رائے دہندگان کی تعداد چھ کروڑ 70 لاکھ سے زائد ہے اور تمام نگاہیں ووٹنگ ٹرن آؤٹ پر ہے جو گزشتہ دو انتخابات کے دوران انتہائی کم رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق مصر میں جاری بحرانوں کے باوجود جس طرح گزشتہ دہائی کے دوران اختلافی آوازوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوتا رہا ہے اس کے بعد صدر عبد الفتاح السیسی کو کسی بڑے مخالف کا سامنا نہیں ہے۔ وہ مصر میں فوج سے سیاسی میدان میں آںے والے مصر کے پانچویں صدر ہیں۔
عبد الفتاح السیسی کی حکومت کے دوران مصر میں ہزاروں سیاسی قیدیوں کو جیل میں ڈالا گیا ہے۔ اگرچہ انہوں نے صدارتی معافی کے اختیار کے تحت ایک برس کی مدت میں تقریباً ایک ہزار افراد کو رہا بھی کیا ہے تاہم حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس کے مطابق اس تعداد سے تین چار گنا زائد مزید افراد اسی مدت میں گرفتار بھی کیے گئے ہیں۔
مصر کی حالیہ سیاسی صورتِ حال میں صدر السیسی کے تیسری بار منصب کے لیے منتخب ہونے کے امکانات واضح ہیں۔
مخالفین کی گرفتاریاں
مصری رائے دہندگان نے اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والی جنگ کے دوران شروع ہونے والی انتخابی مہم پر زیادہ توجہ نہیں دی ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والی جنگ مصر سمیت عرب دنیا کے میڈیا میں ہونے والے مباحثوں اور کرنٹ افیئرز پروگرام کا مرکزی موضوع رہی ہے۔
مصر میں بھی یہی جنگ میڈیا پر چھائی رہی اور السیسی کے حامی حلقوں نے انتخابی مہم اور غزہ کی جنگ کو ایک دوسرے سے منسلک کرکے سیاسی بیانیہ تشکیل دیا۔
ٹی وی میزبان احمد موسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے، ہم باہر نکلیں گے اور کہیں گے کہ ہمیں (غزہ کے رہنے والوں کی مصر کی حدود میں) منتقلی منظور نہیں ہے۔
رواں برس اکتوبر میں اسرائیل پر حماس کے حملے اور اس کے جواب میں اسرائیلی فورسز کی غزہ میں کارروائیوں کے بعد صدر عبدالفتاح السیسی نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا تھا۔
مصر کے صدارتی الیکشن میں تین قدرے غیر معروف امیدوار عبدالفتاح السیسی کے مقابل الیکشن لڑ رہے ہیں۔
ان امیدواروں میں بائیں بازو کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ فرید الظہران، تقریباً 100 برس پرانی وفد پارٹی کے عبدالسند یمامہ اور سابق ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے حازم عمر شامل ہیں۔
ان تینوں امیدواروں میں حازم عمر ٹی وی پر ہونے والے صدارتی مباحثے میں نمایاں امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئے تھے۔ سیسی نے اس مباحثے میں شرکت کرنے کے بجائے ایک رکن پارلیمنٹ کو اپنی نمائندگی کے لیے بھیجا تھا۔
حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے دیگر نمایاں رہنماؤں نے انتخاب میں حصہ لینے کی کوشش کی تھی تاہم حکومت نے تیزی سے انہیں سائیڈ لائن کردیا۔
آج ان میں سے ایک امیدوار قید میں ہیں جب کہ دیگر مقدمے کی کارروائی شروع ہونے کے انتظار میں ہیں۔
صحافی اور سماجی کارکن خالد داؤد نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ آزادیوں کو دبایا جا رہا ہے، میڈیا کو مکمل طور پر کنٹرول کیا جا رہا ہے اور سیکیورٹی سروسز اپوزیشن کو سڑکوں پر نکلنے سے روک رہی ہیں۔
انہوں نے فیس بک پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ہمیں خود سے مذاق نہیں کر رہے۔ یہ انتخابات نہ تو قابلِ اعتبار ہوں گے نہ ہی شفاف۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ حکمراںوں کو واضح پیغام دینے کے لیے ظہران کو ووٹ دیں گے کہ ہم 10 برس بعد تبدیلی چاہتے ہیں۔ مصر میں زندگی دشوار تر ہوتی جارہی ہے اور ملک اپنے سیاسی حالات کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کے نزدیک ہے۔
مشکل اصلاحات
عبدالفتاح السیسی مصری فوج کے ریٹائرڈ فیلڈ مارشل ہیں جنہوں نے 2013 میں بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاج کے بعد اسلام پسند صدر محمد مرسی کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالا تھا۔
اس سے قبل 2014 اور 2018 کے انتخابات میں سیسی نے سرکاری نتائج کے مطابق 96 فی صد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔
بعدازاں سیسی نے صدارتی مدت کو چار سے بڑھا کر چھ برس کردیا تھا اور آئین میں ترمیم کرکے دو بار سے زائد صدر بننے پر عائد پابندی بھی ختم کردی تھی۔
SEE ALSO: غزہ جنگ کے اثرات اور مہنگائی میں گھرے مصر میں انتخابات کی تیاریاںمصر کی سیاسی صورتِ حال میں رائے شماری کی شرح انتخابی عمل سے متعلق عوامی جذبات کا ایک واضح اشاریہ تصور ہوتی ہے۔ گزشتہ انتخاب میں ووٹنگ کی شرح 41.5 فی صد تک گر گئی تھی۔
مصر میں عبدالفتاح السیسی کے حامی بھی موجود ہیں جو انہیں 2011 میں حسنی مبارک کی حکومت ختم ہونے کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے عدم استحکام کو ختم کرنے کا کریڈٹ دیتے ہیں۔
پہلی بار صدر منتخب ہونے کے بعد صدر سیسی نے معاشی استحکام لانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
فروری 2016 کے بعد سیسی نے کئی اقتصادی اصلاحات کیں جن کے بعد مقامی کرنسی کی قدر میں کمی آئی اور سرکاری ملازمتوں میں بھی کٹوتیاں کی گئیں۔
ان اصلاحات کے ساتھ سیسی کے دور میں کئی ارب ڈالر کی لاگت سے نئے دار الحکومت کے قیام کا منصوبہ شروع ہوا جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
اس صورتِ حال کے باعث سیسی کی حمایت میں ملک کے اندر اور باہر کمی واقع ہوئی۔
صدر سیسی کے دور میں مصر کے قومی قرضے تین گنا ہوگئے اور کئی میگا پراجیکٹس، جن میں سے اکثر فوج کی نگرانی میں شروع کیے گئے تھے، وقت پر مکمل نہیں ہوسکے۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔