جنرل عبدالفتح ال سیسی کا کہنا تھا کہ پولیس خاموش تماشائی کی طرح کھڑے ہو کر ملک کو تباہ ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔
واشنگٹن —
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں زندگی معمول کی طرف واپس لوٹتی دکھائی دے رہی ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں ہے اور کچھ دکانیں اور بینک بھی دوبارہ کھل رہے ہیں۔ لیکن مصر کی فوج کے سربراہ نے تنبیہہ کی ہے کہ شہر کے حالات کسی بھی وقت قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔
جنرل عبدالفتح ال سیسی کا کہنا تھا کہ پولیس خاموش تماشائی کی طرح کھڑے ہو کر ملک کو تباہ ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ حکومتی عمارتوں اور پولیس اسٹیشنز پر حکومت مخالف عناصر کی جانب سے حملوں کی صورت میں طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔
ال سیسی کے مطابق ’سبھی کے لیے گنجائش موجود ہے‘۔ انہوں نے معزول کیے جانے والے صدر محمد مرسی کے حامیوں کو بھی سیاسی عمل کا حصہ بننے کی دعوت دی۔
بے دخل کیے جانے والے صدر محمد مرسی کے حامی قاہرہ میں سپریم کورٹ کے سامنے اکٹھے ہوئے مگر انہوں نے اتوار کے روز دیگر دو بڑی احتجاجی ریلیوں کا پروگرام یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا کہ راستے میں ماہر نشانہ باز تعینات کیے گئے ہیں۔
اتوار کے ہی روز مصر کی وزارت ِ خارجہ کے مطابق محمد مرسی کے حامی اور اخوان المسلمین کے 36 افراد شمالی قاہرہ میں جیل سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے آنسو گیس کا نشانہ بنے اور ان کا دم گھٹ گیا۔
نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق امریکہ، یورپی اور عرب سفارتکاروں کی کاوشوں سے مصر کی عبوری حکومت اور اخوان المسلمین کے درمیان ڈیل کے امکانات کافی روشن تھے۔ اگر دونوں فریقوں کے درمیان ڈیل طے پا جاتی تو مصر میں گذشتہ ایک ہفتے میں ہونے والی پر تشدد کارروائیوں سے گریز ممکن تھا۔
مصر کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بدھ کے روز ہونے والی پرتشدد کارروائی میں اب تک 800 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ اخوان المسلمین کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔
دوسری طرف، مصر کی عبوری حکومت کی جانب سے اتوار کے روز ایک ہنگامی میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ آیا اخوان المسلمین پر پابندی عائد کی جائے یا نہیں؟
جنرل عبدالفتح ال سیسی کا کہنا تھا کہ پولیس خاموش تماشائی کی طرح کھڑے ہو کر ملک کو تباہ ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ حکومتی عمارتوں اور پولیس اسٹیشنز پر حکومت مخالف عناصر کی جانب سے حملوں کی صورت میں طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔
ال سیسی کے مطابق ’سبھی کے لیے گنجائش موجود ہے‘۔ انہوں نے معزول کیے جانے والے صدر محمد مرسی کے حامیوں کو بھی سیاسی عمل کا حصہ بننے کی دعوت دی۔
بے دخل کیے جانے والے صدر محمد مرسی کے حامی قاہرہ میں سپریم کورٹ کے سامنے اکٹھے ہوئے مگر انہوں نے اتوار کے روز دیگر دو بڑی احتجاجی ریلیوں کا پروگرام یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا کہ راستے میں ماہر نشانہ باز تعینات کیے گئے ہیں۔
اتوار کے ہی روز مصر کی وزارت ِ خارجہ کے مطابق محمد مرسی کے حامی اور اخوان المسلمین کے 36 افراد شمالی قاہرہ میں جیل سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے آنسو گیس کا نشانہ بنے اور ان کا دم گھٹ گیا۔
نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق امریکہ، یورپی اور عرب سفارتکاروں کی کاوشوں سے مصر کی عبوری حکومت اور اخوان المسلمین کے درمیان ڈیل کے امکانات کافی روشن تھے۔ اگر دونوں فریقوں کے درمیان ڈیل طے پا جاتی تو مصر میں گذشتہ ایک ہفتے میں ہونے والی پر تشدد کارروائیوں سے گریز ممکن تھا۔
مصر کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بدھ کے روز ہونے والی پرتشدد کارروائی میں اب تک 800 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ اخوان المسلمین کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔
دوسری طرف، مصر کی عبوری حکومت کی جانب سے اتوار کے روز ایک ہنگامی میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ آیا اخوان المسلمین پر پابندی عائد کی جائے یا نہیں؟