بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جب کہ کیسز بھی بڑھ رہے ہیں۔ لہٰذا کشمیر میں اس سال عیدالفطر سخت پابندیوں کے زیرِ اثر منائی گئی ہے۔
بھارت میں عید آج، کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ منائی
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عید الفطر جمعرات کو منائی گئی جب کہ بھارت کے دیگر حصوں میں جمعے کو عید منائی جا رہی ہے۔
بھارتی کشمیر میں مذہبی گروپس اور مسجد کمیٹیوں نے بدھ کو رات گئے پاکستان کی مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کی جانب سے شوال کا چاند نظر آنے کے اعلان اور گواہی کی تائید کی تھی اور عید جمعرات کو منانے کا اعلان کیا تھا۔
لیکن جمّوں و کشمیر میں کرونا وائرس پر قابو پانے کے لیے عائد پابندیوں کی وجہ سے جمعرات کو عید پر کوئی بڑا اجتماع ہوا اور نہ ہی کہیں عید کی روایتی چہل پہل نظر آئی۔
سرینگر کی تاریخی جامع مسجد، حضرت بل درگاہ اور دوسری بڑی مساجد، خانقاہوں اور عید گاہوں کے منتظمین نے نمازِ عید کے اجتماعات کا اہتمام نہ کرنے کا پہلے ہی اعلان کر دیا تھا یا پھر پولیس اور متعلقہ ضلعی انتظامیہ نے انہیں روک دیا تھا۔
لہٰذا صرف محلہ مساجد اور بعض بستیوں میں رہائشی مکانوں کے صحن میں لوگوں نے کم تعداد میں کووِڈ ایس او پیز اور دیگر ہدایات پر عمل کرتے ہوئے نمازِ عید ادا کی۔
کرونا کرفیو پر سختی سے عمل درآمد
بھارت کی وفاقی سیکیورٹی فورسز اور جموں و کشمیر کی مقامی پولیس نے جمعے کو تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں 'کرونا کرفیو' سختی کے ساتھ نافذ کیا۔
بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں کرونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے 11 اضلاع میں 29 اپریل کی شام سے کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔ لیکن اگلے دن تمام 20 اضلاع میں 18 مئی تک کے لیے یہ پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس وقت کرونا وائرس کے تقریباً 60 ہزار فعال کیسز موجود ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق سرینگر سے ہے۔ عالمی وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 3000 کا ہندسہ عبور کر چکی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
'خوشی ہوئی کہ لوگ لاک ڈاؤن کی پاسداری کر رہے ہیں'
کشمیر کے معروف ڈاکٹر عبدالوحید بانڈے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ لاک ڈاؤن کووِڈ کا پھیلاؤ روکنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے اور انہیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ لوگ اس کی پاسداری کر رہے ہیں۔ انہیں یہ پابندیاں مزید کچھ عرصہ برداشت کرنا چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی ابھی تک کوئی دوا نہیں ہے۔ لہٰذا اس صورتِ حال میں لاک ڈاؤن ایک ایسا اچھا اور فائدے مند نسخہ ہے جس پر ہم سب کو عمل کرنا چاہیے۔ تاکہ وائرس کی ایک شخص سے دوسرے تک منتقلی کو روکا جاسکے۔
ڈاکٹر عبدالوحید کے بقول لوگوں کو ان پابندیوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔ یہی ان کے مفاد میں ہے۔ کیوں کہ جان ہے تو جہاں ہے۔
عید پرلائن آف کنٹرول پر خیر سگالی کی روایت بحال
بھارت اور پاکستان کی افواج نے جمعرات کو کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر ٹنگڈار کے علاقے میں دریائے 'کشن گنگا'، جو پاکستان میں دریائے نیلم کہلاتا ہے، کا پل پار کر کے ٹیٹوال کراسنگ پوائنٹ پر مٹھائیوں کا تبادلہ کیا اور ایک دوسرے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
ضلع بارہمولہ میں اُڑی، چکوٹھی اور ضلع پونچھ میں چھکن دا باغ کراسنگ پوائنٹس پر بھی مٹھائیوں کا تبادلہ کیا گیا اور اس طرح مذہبی اور علاقائی ثقافتی تہواروں پر خیر سگالی کی روایت کو بحال کیا گیا۔
واضح رہے کہ دونوں ملکوں کی عسکری قیادت نے فروری کے آخری ہفتے میں ہاٹ لائن پر بات چیت کے بعد اچانک اور غیر متوقع طور پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ دونوں ملکوں کی افواج باہمی معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے سرحدوں پر فائر بندی کے سمجھوتے پر سختی سے عمل درآمد کریں گی۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر: ایک ہفتے میں کرونا سے 270 اموات، رمضان کے آخری جمعے پر مذہبی اجتماعات منسوخاس اعلان کے بعد سے لائن آف کنٹرول پر خاموشی ہے اور دونوں طرف کے سرحدی محافظین کے درمیان ہلکے ہتھیاروں سے فائرنگ کے تبادلے کا صرف ایک واقعہ پیش آیا ہے۔
بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹننٹ جنرل پرم جیت سنگھ سانگھا اور اُن کے پاکستانی ہم منصب میجر جنرل نعمان زکریا کے درمیان ہونے والی اس پیش رفت پر لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب رہنے والے شہریوں نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
ایل او سی کے قریب رہنے والے لوگ سالہا سال سے جاری سرحدی تناؤ اور مقابل فوجیوں کے درمیان آئے دن ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے علاوہ طرح طرح کی مشکلات سے دوچار تھے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان نومبر 2003 میں ہونے والے فائر بندی کے سمجھوتے کی تجدید کے اعلان کا اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس، امریکہ، برطانیہ اور کئی دوسرے ممالک نے بھی خیر مقدم کیا تھا اور اسے جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کے لیے مثبت قدم قرار دیا تھا۔