بھارتی زیر انتظام کشمیر، بالخصوص وادی کشمیر میں، عیدالفطرغیر معمولی حفاظتی انتظامات کے تحت ادا کی گئی، اگرچہ دِن مجموعی طور پر پُر امن گزرا اور لاکھوں مسلمانوں نے عید گاہوں، خانقاہوں اور مساجد میں نمازِ عید ادا کی ۔
بعض مقامات پر عید کی جماعت کو بھارت مخالف مظاہروں میں تبدیل کیا گیا جِن کے بعد درالحکومت سری نگر کے پرانے شہر شمال مغربی سوپور اور جنوبی قصبے اننت ناگ میں مظاہرین اور حفاظتی دستوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں جو سہ پہر تک جاری رہیں۔
پتھراؤ کرنے والے نوجواں کو منتشر کرنے کے لیے حفاظتی دستوں نے بانس کے ڈنڈوں کا استعمال کیا اور اشک آور گیس کے گولے داغے۔
دیکھنے والے کہتے ہیں کہ عید گاہوں اور مساجد میں نمازِ عید ادا کرنے کے بعد نوجوان ’ہم آزادی چاہتے ہیں‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے جلوسوں کی صورت میں بڑی بڑی سڑکوں پر مارچ کرنے لگے تو مسلح پولیس دستے اُن کے راستے میں آگئے جو طرفین کے مابین جھڑپوں پر منتج ہوئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سری نگر میں ایک پولیس والا اور ایک خاتون شہری زخمی ہوگئے۔
اِس سے قبل، سری نگر کی عید گاہ میں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کے میر واعظ عمر فاروق نے بھارت کے سماجی کارکن انا ہزارے سے، جنھوں نے رشوت ستانی اور بدعنوانی کے خلاف لاکھوں بھارتیوں کو متحدہ کیا ہے، اپیل کی کہ وہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں کے خلاف بھی آواز بلند کریں، بالخصوص وادی کشمیر میں حال ہی میں دریافت کی گئی بے نام اور اجتماعی قبروں کے بارے میں حکومت سے استفسار کریں۔