بدھ کے روز پاکستانی عوام نے جہاں عید الاضحی روایتی انداز سے منائی وہیں مختلف سیاسی رہنماؤں نے اس موقع کو حلیف اور حریف جماعتوں کے سربراہان سے سیاسی رابطے بڑھانے کیلیے استعمال کیا۔
عیدین پہ دوستوں کو گلے لگانا برِصغیر کی ثقافت کا حصہ ہے جسے مذہبی فریضہ کا درجہ دیتے ہوئے انتہائی عقیدت سے انجام دیا جاتا ہے۔ گو کہ عیدین کے موقع پر دشمنوں کو بھی گلے لگا کر رنجشیں مٹانے کی وعظ و تلقین تو بہت کی جاتی ہے تاہم اس کی مثالیں عملی زندگی میں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔
لیکن پاکستان میں اس مثبت معاشرتی عمل کی ترویج کا بیڑہ اٹھا یا ہے پاکستانی سیاسی رہنماؤں نے جن کے بارے میں کچھ بدگمانوں کی رائے ہے کہ ان سے اس طرح کے نیک کام کم کم ہی سرزد ہوتے ہیں۔
پاکستان میں عیدین کے موقع پر حکومتی رہنماؤں کی جانب سے حلیفوں کو مبارکباد پیش کرنا تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ معمول کی کاروائی ہے۔ تاہم ایک ایسے ملک میں جہاں ماضی میں سیاسی مخالفت کا مطلب وطن سے غداری، اسلام سے اخراج اور بھارتی و امریکی ایجنٹی ہوا کرتا تھا اور ایک کی حکومت تو دوسرے کی جیل میں گزرا کرتی تھی، وہاں سیاسی حریفین کو "نیک خواہشات" کے پیغامات کی ترسیل واقعی ایک احسن روایت ہے۔
ملکی سیاست میں اپوزیشن سے براہِ راست رابطہ کرکے عید کی مبارکباد دینے کے بہانے سرد مہری کا شکار تعلقات میں گرم جوشی پیدا کرنے کی روایت کے آغاز کا سہرا پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کے سر جاتا ہے جس نے اقتدار میں آنے کے پہلے دن سے ہی "افہام و تفہیم کی سیاست" کو اپنا محور گردانا ہے اور اس "اسمِ اعظم" کی بدولت ہر امتحان سے دامن و گریباں سمیت نکلتی آئی ہے۔
اس بار عید الاضحی کے موقع پر بھی حکومتی رہنماؤں نے عید کی مبارکباد دینے کے بہانے جہاں روٹھے ہوئے حلیفوں کو منانے کی کوشش کی وہیں مخالفین سے بھی راہ ورسم بڑھانے کا ڈول ڈالا، تاکہ چت بھی ان کی رہے اور پٹ بھی، اور انٹا "ایوانِ صدر" کا۔۔۔
آج دن کا پہلا اہم رابطہ وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز)کے سربراہ میاں نواز شریف کے درمیان ہوا۔ وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک اعلامیہ کے مطابق گیلانی صاحب نے اپوزیشن (جس پر 'فرینڈلی اپوزیشن' کی پھبتی کسی جاتی ہے) جماعت کے رہنما کو فون کیا اور انہیں عید کی مبارک باد دی۔
اعلامیہ کے مطابق وزیرِ اعظم نے میاں صاحب کے چچا کے انتقال پر ان سے تعزیت کی اور اپنی "نیک خواہشات" کا پیغام ان تک پہنچایا۔ تاہم اعلامیہ میں مطلب کی بات سب سے آخر میں درج کی گئی ہے، یعنی وہ بات جس کیلیے دراصل فون کیا گیا تھا۔ اور وہ یہ کہ "۔۔۔اس کے علاوہ دونوں رہنماؤں نے ملک کی سیاسی صورتِ حال پر تبادلہ خیال بھی کیا"۔
اس تبادلہ ء خیال سے تعلقات پہ جمی برف کتنی پگھلی، اس حوالے سے راوی خاموش ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس راز کو افشا کرنا "ملکی مفاد" میں نہ ہو۔
اعلامیہ کے مطابق وزیرِ اعظم صاحب نے گفتگو کے دوران میاں صاحب کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے کچھ روز قبل صدرآصف علی زرداری کو جو خط لکھا تھا، اس کا ابتدائی جواب صدر کی طرف سے روانہ کردیا گیا ہے اور اس جواب کی کاپی ایوانِ وزیرِ اعظم کو موصول ہوگئی ہے۔ یقیناً یہ ایوانِ صدر کے کسی کلرک کی غلطی ہوگی جس نے لفافے پر جاتی عمرہ کے بجائے ایوانِ وزیرِ اعظم کا پتہ لکھ ڈالا اور خط کا جواب میاں صاحب کے بجائے گیلانی صاحب کو موصول ہوگیا۔ پتا نہیں میاں صاحب نے اس غلطی پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا یا نہیں۔
اعلامیہ کے مطابق وزیرِ اعظم نے نون لیگ کے قائد کو بتایا کہ یہ جواب ابتدائی ہے جبکہ خط پر تفصیلی جواب جلد بھجوادیا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں ایوانِ صدر کی جانب سے فی الحال نامہ کی رسید روانہ کی گئی ہے اور وہ بھی غلط پتے پر۔ اور یہ نہ وزیرِ اعظم صاحب نے بتایا نہ بھولے شریف نے پوچھا کہ تفصیلی جواب کب تک متوقع ہے؟ ویسے شاید دونوں حضرات کو کو ئی جلدی بھی نہیں۔ یوں بھی ابھی حکومت کی مدت پوری ہونے میں تین سال باقی ہیں!!! سو میاں صاحب، بیٹھے رہیں تصورِ "نامہ" کیے ہوئے!!
وزیرِ اعظم صاحب نے اگلا تعزیتی فون اپنی حلیف جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے لندن میں مقیم رہنما الطاف حسین کو کیا اور ان سے پارٹی کے دو ماہ قبل قتل ہونے والے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے وفات پر تعزیت کی۔
وزیرِ اعظم صاحب نے ایم کیو ایم کے رہنما کو عید کی مبارکباد بھی پیش کی۔ اب اگر الطاف حسین بھی جواباً گیلانی صاحب کو مبارکباد پیش کردیتے تو یہ تو مقابلہ برابر ہوجانا تھا!! لہذا اپنی انفرادیت قائم رکھنے کیلیے قائدِ تحریک نے ایک قدم آگے بڑھ کر وزیرِ اعظم ہاؤس کے تمام اسٹاف کو بھی عید کی مبارک باد پیش کر ڈالی۔ اور یوں افہام و تفہیم کی اس سیاست کا کچھ فیض "عام افراد" کے حصے میں بھی آیا۔
سرکاری اعلامیہ نویس کے مطابق اس گفتگو کے دوران الطاف حسین صاحب نے ملک میں امن و استحکام، ترقی و خوشحالی، بحرانوں کے خاتمے، سیلاب زدگان اور عوام الناس کی مشکلات کے خاتمے کیلیے پہ در پہ کئی دعائیں مانگیں۔ تاہم اعلامیہ میں یہ نہیں لکھا گیا آیا وزیرِ اعظم صاحب نے ان دعائوں پر آمین کہا یا نہیں۔ ہم حسنِ ظن رکھتے ہوئے گمان کیے لیتے ہیں کہ وزیرِ اعظم نے آمین کہا ہی ہوگا۔ ہم ان دعاؤں میں ایک اور دعا کا اضافہ کرلیتے ہیں کہ اللہ ہمارے رہنماؤں کی اخلاص سے بھرپور ان دعاؤں کو قبول کرکے عوام کے مسائل کا خاتمہ فرمائے۔
ایم کیو ایم آج کل اپنی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی سے روٹھی روٹھی ہے اور اس روٹھنے کی بدولت پارلیمان میں ہنگامہ سا برپا ہے۔ ایم کیو ایم پہلے ہی حکومت کی جانب سے "فلڈ ٹیکس" اور "اصلاحاتی جنرل سیلز ٹیکس" کے نفاذ کے فیصلے کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں نکلی ہوئی تھی اور حکومت میں رہتے ہوئے اپوزیشن کا کردار ادا کررہی تھی، کہ رواں ہفتے ججوں کی تقرری کیلیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی میں اسے نمائندگی نہ دیے جانے کے حکومتی فیصلے نے جلتی پر تیل کا کام کردیا۔
غالباً انہیں رنجشوں کا نتیجہ تھا کہ بدھ کو ہونے والی "تعزیتی و مبارکبادی فون کال" کے دوران دونوں رہنماؤں نے ملک کی سیاسی صورتِ حال پر گفتگو نہیں کی۔ کم از کم سرکاری نامہ نویس کی اس ضمن میں اختیار کردہ خاموشی تو یہی کہتی ہے، لیکن اگر کواکب ہوں کچھ اور نظر کچھ آتے ہوں تو راقم کی بد گمانی معاف۔۔۔
اور اس کے بعد جنابِ وزیرِ اعظم نے کیا آج کا "اصلی تہ وڈّا" رابطہ اور وہ ہوا مسلم لیگ (قاف) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے۔ تاہم اس رابطے میں کسی تعزیت کا سہارا لیے بغیر وزیرِ اعظم صاحب نے سیدھی سیدھی مطلب کی بات کی کہ وہ چوہدریوں کے گھر آنا چاہتے ہیں۔ جواباً چوہدری صاحب نے "جی آیا نوں، دیدہ و دل فرشِ راہ، وہ آئے ہمارے گھر ۔۔۔" جیسی علّتوں کا سہارا لیے بغیر فرمایا کہ ان کے دروازے وزیرِ اعظم صاحب کیلیے ہر وقت کھلے ہیں، وہ تشریف لائیں، "روٹی شوٹی" اکھٹے ہی کھائیں گے۔ پتا نہیں بڑے چوہدری صاحب نے یہ کہا کہ نہیں کہ "جلنے والے کا منہ کالا"۔۔۔
اس فون کال کے دوران بھی عید کی مبارکبادوں اور "نیک تمناؤں" کے تبادلے ہوئے۔ پاکستانی سیاست دانوں کی نیک تمنائیں!!