بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پر تشدد واقعات کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہو گیا ہے، جس میں مجموعی طور پر اب تک 11 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
جمعرات کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ دو الگ الگ جھڑپوں میں 6 مشتبہ عسکریت پسند اور ایک بھارتی فوجی مارے گئے۔ ان میں سے ایک جھڑپ کے دوران جنوبی ضلع پُلوامہ میں ایک شہری بھی ہلاک ہوا۔ تشدد کے دوسرے واقعات میں مزید تین افراد مارے گئے۔ دو مقامی عسکریت پسندوں کی تدفین میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
جمعرات کی سہ پہر کو جنوبی ضلع شوپیان کے ہنداؤ گاؤں میں بھی عسکریت پسندوں اور سرکاری دستوں کے درمیان ایک جھڑپ ہوئی جس میں عہدیداروں کے مطابق تین مشتبہ عسکریت پسند ہلاک جب کہ ایک بھارتی فوجی زخمی ہوا۔
ادھر ریاست کے جموں خطے کے بھدرواہ قصبے اور مضافاتی علاقوں میں بھی فرقہ وارانہ حساسیت کے پیش نظر کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
بھدرواہ میں بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ایک مقامی شخص نعیم احمد شاہ کو مبینہ طور پر تحفظِ گائے تحریک کے کارکنوں نے اُس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا، جب وہ اور مویشیوں کے دو تاجر مویشی لے کر اپنے آبائی علاقے کی طرف جا رہے تھے۔
اس واقعے کے خلاف مقامی مسلمانوں نے جمعرات کی صبح بھدرواہ کی سڑکوں پر احتجاج اور مشتعل مظاہرین نے مقامی پولیس اسٹیشن پر پتھراؤ کیا، جب کہ اس دوران دو آٹو رکشا اور ایک موٹر سائیکل کو بھی آگ لگا دی گئی۔ ان واقعات کے بعد حکام نے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا۔
بھارت میں جہاں حالیہ مہینوں میں گائے کے گوشت کا معاملہ بظاہر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی وجہ بنا ہے، اس طرح کے واقعات میں کئی افراد ہلاک کئے جا چکے ہیں۔
ایک اور واقعے میں جمعرات کی صبح جنوبی ضلع پُلوامہ میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں تین مشتبہ عسکریت پسند، ایک بھارتی فوجی اور ایک شہری ہلاک ہو گیا۔ واقعے میں دو فوجی اور ایک عام شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔
زخمی شہری جھڑپ میں مارے جانے والے ایک شہری کا بھائی ہے۔
وادی میں تشدد کے دوسرے واقعات میں مزید تین افراد ہلاک ہو گئے جن میں علاقائی سیاسی جماعت 'پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی' (پی ڈی پی) کا ایک رکن بھی شامل ہے۔
تشدد کے تازہ واقعات کے بعد وادی کی صورتِ حال کشیدہ ہو گئی اور بعض مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔
حکام نے مظاہروں کو روکنے کے لیے متعدد مقامات پر کرفیو لگا دیا ہے یا کرفیو جیسی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
حکام کے مطابق، بھارتی فوج اور مقامی پولیس کے اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) نے پُلوامہ کے ڈلی پورہ گاؤں میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع پر جمعرات کو علی الصباح آپریشن کیا۔
پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ آپریش کے دوران سیکورٹی دستے جب اُس مکان کے قریب پہنچے جہاں عسکریت پسند چھپے ہوئے تھے تو اُن پر فائرنگ کی گئی۔ جوابی فائرنگ کے نتیجے میں جھڑپ شروع ہو گئی جو کئی گھنٹے تک جاری رہی۔
ترجمان نے جھڑپ میں ہلاک ہونے والے ایک عسکریت پسند کی شناخت کالعدم تنظیم جیشِ محمد کے ایک اہم کمانڈر خالد کے نام سے کی ہے۔ ترجمان کے بقول، خالد غیر ملکی تھا۔
ادھر پولیس نے بتایا ہے کہ خالد کے ساتھ ہلاک ہونے والے باقی دونوں افراد کا تعلق بھی جیشِ محمد سے تھا جن کے نام نصیر احمد پنڈت اور عمر احمد میر تھے۔
جھڑپ میں ہلاک ہونے والے بھارتی فوجی کی شناخت سپاہی سندیپ کمار کے نام سے ہوئی ہے۔ واقعے میں دو سگے بھائی بھی زخمی ہوئے جو اُس مکان کے مالک کے بیٹے ہیں جس میں عسکریت پسند مقیم تھے۔ ان میں سے ایک شخص رئیس احمد بعد میں زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا۔
جھڑپ میں مشتبہ عسکریت پسندوں اور شہری کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی پُلوامہ اور ہمسایہ ضلع شوپیان میں کئی مقامات پر لوگوں نے مظاہرے کیے۔ بعض مقامات پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی بھی اطلاعات ہیں جب کہ علاقے میں کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔
پلوامہ اور ملحقہ دیہات میں کشیدگی اور مظاہروں میں اضافے کے خدشے کے پیشِ نظر علاقے میں ٹرین سروس بند کر دی گئی ہے، جب کہ موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔
اُدھر سرحدی ضلع کپواڑہ کے کنڈی جنگل میں بھی مشتبہ عسکریت پسندوں اور بھارتی فوجی دستوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔
کپواڑہ پولیس کے افسر امبارکر شری رام ڈنکر نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ جھڑپ کشمیر کی حدبندی لائن کے قریب واقع پورٹل ناڑ اور رازدان ناڑ علاقے میں فوج اور وہاں موجود عسکریت پسندوں کے درمیان ہوئی ہے جہاں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔
اسی دوران، وادی کے کئی شیعہ اکثریتی علاقوں میں بھی جمعرات کی صبح پر تشدد احتجاجی مظاہرے ہوئے جنہیں روکنے کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
مظاہروں میں تیزی کا سبب تین دن پہلے پولیس کی طرف سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کے نتیجے میں ایک نوجوان ارشاد احمد کی ہلاکت بتائی جاتی ہے۔
مظاہرے شمالی ضلع بانڈی پور کے سمبل علاقے میں 8 مئی کو ایک تین سالہ بچی کے ساتھ مبینہ زیادتی کے خلاف کیے گئے تھے۔
وادی میں جاری احتجاج میں بڑی تعداد میں طلبہ اور طالبات بھی شامل ہیں جس کے پیشِ نظر حکام نے بیشتر ہائر سیکنڈری اسکول اور کالج بند کر دیے ہیں۔