الیکشن ایکٹ میں ترمیم؛ ’قانون میں تبدیلی ہوئی تو عدلیہ اور حکومت آمنے سامنے ہوں گے‘

pakistan-parliament-house

  • حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے الیکش ایکٹ میں ترمیم کے لیے پرائیوٹ ممبر بل پیش کیا
  • پارلیمانی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پرائیوٹ ممبر بل پر پارلیمانی کمیٹی میں اتنی تیزی سے کارروائی نہیں ہوتی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے حکومت کی تائید حاصل ہے
  • پارلیمانی کمیٹی میں بل پر وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ اور پی ٹی آئی کے رکن علی محمد خان کے درمیان بحث ہوئی
  • مبصرین کے مطابق اس قانون سازی کا مقصد سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عمل درآمد روکنا یا اس میں رکاوٹ پیدا کرنا معلوم ہوتا ہے
  • مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری کرانے کے لیے دباؤ بڑھانا بھی اس ترمیم کا مقصد ہوسکتا ہے تاکہ جلد اس جلد نظرِ ثانی کی سماعت شروع ہو، تجزیہ کار
  • حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ترمیمی بل کو جل قانون بنانے کی حکمتِ عملی پر کام شروع ہوگیا ہے

اسلام آباد__الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے لیے بلوں کی پارلیمانی کمیٹی سے مںظوری کے بعد حکومتی ذرائع کے مطابق اسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کرانے اور قانون بنانے کی حکمتِ عملی پر کام شروع کردیا گیا ہے۔

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا بل بدھ کو قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے کثرت رائے سے منظور کیا تھا۔

الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل کے متعلق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد روکنا یا اس میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے۔ ان کے بقول اس ترمیم سے حکومت، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ آمنے سامنے آسکتے ہیں۔

مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درآمد کی صورت میں (ن) لیگ کی مرکز میں حکومت ختم تو نہیں ہوگی تاہم حکومتی اتحاد کو ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں رہے گی۔

بعض مبصرین کے مطابق الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل لانے کا ایک مقصد سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں پر تفصیلی فیصلہ جاری کرانا بھی ہوسکتا ہے۔

بل میں کیا ہے؟

الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل منگل کو مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی اور زیب جعفر نے پیش کیا تھا جس میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 66 اور 104 میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔

الیکشن ایکٹ کے سیکشن 66 میں تجویز کی گئی ترمیم کاغذاتِ نامزدگی میں سیاسی جماعت سے وابستگی ظاہر کرنے سے متعلق ہے۔

بل میں ترمیم تجویز کی گئی ہے کہ انتخابی نشان الاٹ کرنے سے قبل اگر کوئی امیدوار کسی سیاسی جماعت سے اپنی وابستگی سے متعلق ریٹرننگ افسر کے سامنے بیان حلفی جمع نہیں کراتا تو اسے آزاد امیدوار تصور کیا جائے گا۔

مجوزہ ترمیم کے مطابق اگر کوئی آزاد امیدوار بعد کے کسی مرحلے میں سیاسی وابستگی سے متعلق بیانِ حلفی جمع کراتا ہے کہ اس نے سیاسی جماعت کے امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا تھا تب بھی اسے آزاد امیدوار ہی تصور کیا جائے گا۔

الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 میں یہ ترمیم تجویز کی گئی ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت مقررہ مدت کے اندر مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست جمع کرانے میں ناکام رہتی ہے تو وہ یہ مدت گزر جانے کے بعد مخصوص نشستوں کے کوٹے کے لیے اہل نہیں ہوگی۔

بل کے مطابق الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 میں شامل کی گئی شق 104 الف میں کہا گیا ہے کہ اگر کامیاب آزاد امیدوار آرٹیکل 51 کی شق چھ یا آرٹیکل 106 کی شق تین کے مطابق کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلیتا ہے تو یہ ناقابلِ تنسیخ ہوگی۔

گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے میں کامیاب ہونے والے ایسے آزاد اراکین کو 15 دنوں میں کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے کا موقع دیا تھا جنہوں نے عام انتخابات کے دوران کاغذات نامزدگی میں پارٹی وابستگی ظاہر نہیں کی تھی اور بعدازاں وہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوگئے تھے۔

SEE ALSO: تحریکِ انصاف اداروں سے معافی مانگے تو قومی دھارے میں شامل ہو سکتی ہے: احسن اقبال

پرائیوٹ ممبر بل کی ایک دن میں کمیٹی سے مںظوری

قومی اسمبلی کے 30 جولائی کو ہونے والے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین بلال اظہر کیانی اور زیب جعفر نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کے لیے پرائیوٹ ممبر بل پیش کیے تھے جن کی وفاقی وزیر قانون نے مخالفت نہیں کی اور اس بل کو متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا تھا۔

اگلے ہی روز 31 جولائی کو قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل 2024 کثرت رائے سے منظور کر لیا۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے ارکان نے کمیٹی سے مذکورہ بل کی منظوری کی مخالفت کی جب کہ جے یو آئی کی شاہدہ بیگم نے بل پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ مسلم لیگ(ن) کے اراکین کے ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی کے نوید عامر جیوا نے بل کی منظوری کے حق میں ووٹ دیا۔

نوید عامر جیوا ںے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں پارٹی پالیسی کے مطابق بلوں کے حق میں ووٹ دیا ہے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں جب وزیرِ قانون نے ترمیمی بل کی حمایت میں بات کرنا شروع کی تو پی ٹی آئی کے رکن علی محمد خان نے کہا کہ یہ نجی ممبر بل ہے، آپ اس کی وکالت مت کریں یہ بل جس نے پیش کیا ہے اسی کو تشریح کرنی چاہیے۔

علی محمد خان نے کہا کہ لگتا ہے کہ یہ بل وزیرِ قانون کی منشا سے آیا ہے۔

اس پر وزیر قانون نے کہا کہ یہ بل ساری کنفیوژن دور کرتا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، عدالت کا نہیں۔ الیکشن کے بعد پراسز ہوا اور کسی پارٹی میں شمولیت کا وقت ختم ہو گیا تو کس قانون کے تحت کسی رکن کو دوبارہ کسی دوسری جماعت میں شمولیت کا کہا جا سکتا ہے؟

علی محمد خان نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ بقابلہ سپریم کورٹ کا معاملہ ہوگا۔ اس بل پر الیکشن کمیشن کی رائے کیا ہے۔ جس پر سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس بارے میں کوئی رائے نہیں ہے۔

پارلیمانی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کم ہی دیکھا گیا ہے کہ نجی ممبر بل پیش ہونے کے دوسرے دن کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلا کر منظور کرلیا گیا ہو۔ اس کے برعکس نجی ممبر بلز مہینوں اور بعض اوقات تو سال کے عرصے میں بھی کمیٹی سے منظور نہیں ہوپاتے۔

SEE ALSO: عدالتی فیصلے کے باوجود تحریکِ انصاف کو مخصوص نشستیں کیوں نہیں مل رہیں؟

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب یہ بل جمعے کو قومی اسمبلی سے منظور کروا کر سینیٹ کو بھجوانے کی حکمت عملی پر کام شروع کردیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی سے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بل کی منظوری کے بعد سینیٹ کا اجلاس طلب کرنے کی حکمت عملی پر بھی کام ہو چکا ہے جس کے بعد بل دستخط کے لیے صدرِ پاکستان کو بھجوایا جائے گا اور اس طرح الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل قانون بن جائے گا۔

الیکشن ایکٹ میں ترمیم کیوں؟

سینئر تجزیہ کار نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں پیش کردہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بل کے متن ہی سے لگتا ہے کہ یہ مخصوص نشستوں کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد روکنے یا اس میں تاخیر کے لیے لایا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد تحریکِ انصاف کو مخصوص نشستیں ملنے میں قانونی رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے اور معاملہ تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کوئی اقدام کرتی ہے تو پارلیمنٹ، حکومت اور سپریم کورٹ آمنے سامنے آ سکتی ہیں۔

سینئر تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت اگر پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں ملتی تو اس میں پی ٹی آئی کا کوئی سیاسی نقصان نہیں ہوگا البتہ نشستیں ملنے کی صورت میں وہ قومی اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی بن جائے گی اور اگر چاہے تو اتحادی حکومت بنانے کی کوشش کرسکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کو عدالتوں سے بے جا ریلیف مل رہا یے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے بدلتے لہجے کے باعث بھی مسلم لیگ (ن) کو لگتا ہے کہ کہیں بیک ڈور عمران خان سے بات چیت نہ چل رہی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن ابھی تک پی ٹی آئی کو اسٹبلشمینٹ سے کوئی رعایت نہیں مل رہی ہے اور ڈیڈ لاک برقرار ہے۔

سینئر تجزیہ کار مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل لانے کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مخصوص نشستوں کے متعلق سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری ہو جائے اور اس فیصلے کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی نظرِثانی درخواست پر کارروائی شروع ہوجائے۔

SEE ALSO: پی ٹی آئی پر پابندی میں تاخیر؛ کیا حکومت سیاسی جماعتوں کو قائل کر سکے گی؟

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا تو اس کے نتائج ہوں گے۔ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں مس کنڈکٹ کے تحت کارروائی کرسکتی ہے۔

مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پارلیمنٹ اور اسٹیبلشمینٹ کے پیچھے چھپ رہا ہے۔ مگر اصل میں مسئلہ عدلیہ اور اسٹبلشمینٹ کے درمیان ہے۔

ان کے بقول اسٹبلشمینٹ کے لیے پہلی لائین آف ڈیفینس حکومت، دوسری الیکشن کمیشن اور تیسری پارلیمنٹ ہے۔

تجزیہ کار مطیع اللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی متنازع اکثریت استعمال کر کے عدالت سے جنگ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے مگر فساد ہوا تو فائدہ اسٹیبلشمنٹ کو ہوا کیوں کہ ماضی بھی ایسے حالات کا فائدہ انہیں کو ہوا ہے۔