امریکا میں بدھ کے روز ہم جنس پرستوں کے افواج میں خدمات انجام دینے پر عائد پابندی سے متعلق قانون کا خاتمہ کردیا گیا جسے تجزیہ کار امریکی افواج کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی افواج میں ہم جنس پرستوں کی جانب سے خدمات انجام دینے پر گزشتہ کئی دہائیوں سے پابندی چلی آرہی تھی تاہم امریکی افواج کی اس پالیسی میں 1993 میں نرمی کرتے ہوئے ہم جنس پرست خواتین و حضرات کو اس وقت تک فوج میں ملازمت کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی جب تک ان کے جنسی رجحان سے متعلق حقیقت ظاہر نہیں ہوجاتی۔
اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے مذکورہ پابندی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم ان کے اس اعلان کے بعد ملک بھر میں شروع ہونے والی گرما گرم سیاسی بحث اور مخالفت کے بعد صدر کلنٹن کو اپنی رائے واپس لینا پڑی تھی اور کلنٹن انتظامیہ کی جانب سے نسبتاً کم سخت پابندیوں پر مشتمل "ڈونٹ آسک، ڈونٹ ٹیل" کے نام سے معروف قانون متعارف کرایا گیا تھا۔
مذکورہ قانون کے تحت امریکی افواج کی جانب سے بھرتی کیے جانے والے رنگروٹوں سے ان کے جنسی رجحان کے حوالے سے باز پرس کرنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی تاہم اگر ملازمت کے کسی مرحلے پر کسی فوجی کے ہم جنس پرستی میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوتا تو اسے ملازمت سے برخواست کردیا جاتا تھا۔
تاہم بدھ کے روز صدر اوباما نے "ڈونٹ آسک، ڈونٹ ٹیل" نامی قانون کے خاتمے کے بل پر دستخط کرکے ہم جنس پرستوں پر امریکی افواج میں بلا کسی روک ٹوک کے ملازمت کرنے کے دروازے کھول دیے جسے مختلف طبقوں کی جانب سے خوش آئند قدم قرار دیا جارہا ہے۔
ماضی میں ہم جنس پرستی میں ملوث ہونے کے نتیجے میں امریکی افواج سے فارغ ہونے والے کئی افسران اور اہلکاروں نے مذکورہ پابندی کے خاتمے کا خیر مقدم کیا ہے۔
"ڈونٹ آسک، ڈونٹ ٹیل" کے قانون کے تحت امریکی ایئر فورس سے فارغ کیے جانے والے لیفٹیننٹ کرنل وکٹر فیرنبچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکی افواج میں ہم جنس پرستوں پر عائد پابندی کے باعث وہ ماضی میں خود کو دوسرے درجے کا ایک شہری سمجھنے پر مجبور تھے۔ کوسوو، عراق اور افغانستان کے محاذوں پر دادِ شجاعت دینے والے کرنل وکٹر نے ہم جنس پرستی پر عائدپابندی کے خاتمے کو امریکہ اور امریکی افواج کیلئے ایک بڑی پیش رفت قرار دیا۔
اوباما انتظامیہ کی جانب سے مذکورہ پابندی کے خاتمے کے نتائج فوری طور پر سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں اور ہارورڈ، ییل اور اسٹینفورڈ سمیت امریکہ کی کئی ممتاز جامعات نے فوجی بھرتیوں سے متعلق پروگرامات کے دوبارہ آغاز کا عندیہ دیا ہے۔
واضح رہے کہ ان جامعات نے ہم جنس پرستی پر عائد پابندی کے باعث اپنے اپنے کیمپسز کی حدود میں امریکی افواج کے ان پروگرامز پر پابندی عائد کررکھی تھی جن کا مقصد کالج کے طلبہ کوفوج میں بھرتی کی طرف راغب کرنا تھا۔ تاہم بدھ کو پابندی کے خاتمے کے اعلان کے بعد ان جامعات کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹیز کی انتظامیہ کی جانب سے "ریزروڈ آفیسرز ٹریننگ کور" نامی پروگرام کے دوبارہ آغاز کیلئے فوجی حکام سے گفت و شنید کی جائے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ کی جانب سے افواج میں ہم جنس پرستی پر عائد پابندی کے خاتمے کے اثرات امریکی معاشرے کے کئی دیگر شعبوں پر بھی مرتب ہونگے۔
جارج ٹاؤن یونورسٹی کے شعبہ قانون سے منسلک پروفیسر نان ہنٹر کا کہنا ہے کہ مذکورہ پابندی کے خاتمے کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ عدالتیں ہم جنس پرستوں سے متعلق معاملا ت کا فیصلہ دیتے ہوئے افواج کیلئے متعارف کرائے گئے نئے قانون کو پیشِ نظر رکھیں گی۔
امریکی افواج میں ہم جنس پرستوں کی بھرتی پر عائد پابندی برقرار رکھنے کے حامی گروپ "فیملی ریسرچ کونسل " سے منسلک سابق آرمی کرنل رابرٹ میگی نس نے "ڈونٹ آسک، ڈونٹ ٹیل" قانون کے خاتمے کو امریکی کانگریس کی جانب سے ملک میں ہم جنس پرستی کی اجازت دیے جانے سے تعبیر کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کرنل میگی نس کا کہنا تھا انہیں خدشہ ہے کہ افواج میں ہم جنس پرستی پر عائد پابندی کے خاتمے کے بعد اب عدالتیں اور امریکی ثقافت معاشرے میں آتی اس نئی تبدیلی کی طرف زیادہ متوجہ ہونگے۔