سمندروں کی کیفیت کے بارے میں بین الاقوامی پروگرام نے جو رپورٹ حال ہی میں جاری کی ہے اُس پر ’بوسٹن گلوب‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ اِس رپورٹ میں اُن عوامل کی نشاندہی کی گئی ہے جِن کی وجہ سے بنی نوع انسان کو بھاری خطرہ لاحق ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس کُرّہٴ ررض کا 70فی صد حصہ سمندر سے ڈھکا ہوا ہے جو آب و ہوا میں انسان کی پیدا کردہ حرارت کا 80فی صد اور کاربن ڈائکسایڈ کا 30فی صد اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ لیکن، اِس ادارے کی رپورٹ کے مطابق، سمندر شاید یہ بوجھ سہارنے کے قابل نہ رہے۔ پچھلے سے کہیں زیادہ مچھلیاں پکڑی جارہی ہیں، سمندر آلودہ ہورہے ہیں، کاربن ڈائکسایڈ کا اخراج جاری ہے۔ اِن سب کا مجموعی اثر یہ ہے کہ سمندر زیادہ تیزی کے ساتھ آلودہ ہو رہے ہیں جِس کے نہ صرف سمندر کے ماحولیاتی نظاموں بلکہ انسانوں کو نتائج بھگتنے پڑیں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے سمندر وسیع اور عریض ہیں، لیکن انسانوں نے اُن کو بدل دیا ہے اور طویل وقتی حل کی عدم موجودگی میں سمندر اپنے آپ نہیں بدل سکتے، اور اُن کے ماحولیاتی نظام کو بچانے کے لیے عالمی سطح پر اس میں بنیادی تبدیلیاں لانا پہلا قدم ہونا چاہیئے۔ سمندروں سے متعلق بین الاقوامی معاہدے کی 150ملک حمایت کرتے ہیں ۔ اوباما انتظامیہ بھی اس کی حامی ہے، لیکن سینیٹ میں ری پبلیکن ارکان کی مخالفت کی وجہ سے یہ معاہدہ رُکا پڑا ہے۔ ری پبلیکنز کا اصرار ہے کہ اِس معاہدے کی وجہ سے امریکی اقتصادی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حالانکہ، قواعد و ضوابط کی وضاحت کرنا ماحولیات کے حق میں بھی اچھا ہے اور کاروبار کے لیے بھی۔
’ڈیٹرائیٹ نیوز‘ اخبار کے ایک اداریے کا عنوان ہے ’مِشی گن ریاست کو تارکینِ وطن کو اپنے یہاں خوش آمدید کہنا چاہیئے۔‘ اخبار یاد دلاتا ہے کہ ڈیٹرائیٹ اور خود مشی گن ریاست کی تعمیر تارکینِ وطن کے ہاتھوں سے ہوئی تھی۔ یورپی مہم جوؤں کے ابتدائی دنوں سے لے کر ایک صدی قبل موٹر کار بنانے کی عظیم صنعت کی تعمیر میں تارکینِ وطن نے اِس علاقےکی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا اور اس علاقے کو اگر اپنی سابقہ اقتصادی قوت بحال کرنی ہے تو یہ باہر سے آنے والوں کے لیے ایک خوش آمدید کہنے والی منزل ہونی چاہیئے۔
اخبار نے ریاستی گورنر رِک سنائی ڈر کے اِس بیان کا خیر مقدم کیا ہے کہ اِس ریاست کے اقتصادی احیا ٴکے پروگرام کے لیے اُنھیں امید ہے کہ باہر کے ملکوں سے آنے والے لوگوں کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ ڈیٹرائیٹ کو مزید تارکینِ وطن کی ضرورت ہے اور نئے اور چھوٹے کاروباری اداروں کی تخلیق میں حائل دفتر شاہی کی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
نئے تارکینِ وطن کی آمد سے اقتصادی فوائد اور روزگار میں اضافہ ہوتا ہے اور اخبار نے اِس بات کا خیر مقدم کیا ہے کہ ریاست کی قیادت کو اِس کا پورا اندازہ ہے۔
اخبار ’سین فرانسسکو کرانیکل‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ اگلے سال کے عام انتخابات قریب آنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کی دونوں بڑی پارٹیوں کو اپنے ووٹروں کے ساتھ مسائل درپیش ہیں۔ ری پبلیکن ووٹروں کو بے اطمینانی ہے تو ڈیموکریٹ نااُمید ی ۔ اِس وقت ری پبلیکن پارٹی کے نو امیدوار صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں ہیں۔
صدر اوباما کے بارے میں اخبار کہتا ہے کہ جنگ کے مخالفین کی تحریک کو اِس بات پر مایوسی ہے کہ وہ افغانستان سے اتنی جلدی فوجیں نہیں ہٹا رہے جیسا کہ وہ چاہتے تھے۔ شہری آزادیوں کے حامیوں کو نااُمیدی ہے کہ اوباما گوان ٹانمو کا قیدخانہ بند کرنے کے وعدے سے پھر گئے ہیں۔ اور اخبار کا اندازہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کو ایسے امیدواروں سے پالا پڑ رہا ہے جو مرکز کی جانب سرک گئے ہیں اور مصالحت کے موڈ میں ہیں، جب کہ دونوں پارٹیوں کے سرگرم کارکن محاذ آرائی کے حامی ہیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: