پینسلوانیا کےمختصردورےسے واپسی پرصدر اوباما جمعرات کو وائٹ ہاؤس پہنچےاورمصرکی صورتِ حال پر اپنےمشیروں کے ساتھ مزید صلاح و مشورہ کرتے رہے۔
وائٹ ہاؤس کے سینئر نامہ نگار ڈین رابنسن نے بتایا ہے کہ مصر میں تشدد کی نئی لہرکو رکوانے کے لیے امریکہ نےمصری حکومت اور فوج پرمزید زور ڈالا ہے۔
اخباری نامہ نگاروں سے بات کیے بغیر صدر تیزی سے اوول آفس کی طرف گئے، جہاں پر گذشتہ چند دِنوں کے دوران جب سے مصری بحران شروع ہوا ہے، وہ اپنے مشیروں کے ساتھ ملاقاتیں کرتے رہے ہیں اوردو بار ٹیلی فون پر صدر حسنی مبارک سے گفتگو کر چکے ہیں۔
‘اے بی سی ’ کی نامہ نگار کرسٹینا امان پور سے ایک انٹرویو میں مسٹر مبارک نے ہونے والی گفتگو کی طرف اشارہ کیا۔ انٹرویو کےاقتباسات کےمطابق اُنھوں نے کہا کہ مسٹر اوبامہ بہت ہی اچھے انسان ہیں لیکن وہ مصری ثقافت سے واقف نہیں ہیں۔
اُسی انٹرویو میں مسٹر مبارک نے کہا کہ وہ مصر میں تشدد کے واقعات پرناخوش ہیں، جن کا الزام اُنھوں نے اخوان المسلمین پرعائد کیا، تاہم اُنھوں نے کہا کہ وہ اقتدار سےدست بردار نہیں ہوں گے جس کے نتیجے میں افراتفری ہوگی، جس کاخطرہ وہ مول لے نہیں سکتے۔
اِس سے قبل آج ہی کے دِن صدر اوباما نے مصرکے بارے میں ایک مختصربیان نیشنل پریئربریک فاسٹ کے موقعے پراپنی تقریر میں دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس وقت مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والے تشدد کےواقعات سے ہم سب واقف ہیں، ہم مصر میں تشدد بند ہونے، مصری عوام کے حقوق اور خواہشات پوری ہونےاور مصر اور دنیا بھر میں بہتری کا نیا سورج طلوع ہونے کے لیے دعاگو ہیں۔
اِس بات کا کم ہی امکان ہے کہ صدر اوباما مصر کے بارے میں آج مزید کوئی بیان جاری کریں، جب کہ امریکہ نےتشدد کو روکنے کے لیےمصری حکومت پردباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔
مصر کے نائب صدر عمر سلیمان نے اے بی سی کو بتایا کہ حکومت مصری عوام کے خلاف طاقت کے استعمال کی ہرگزاجازت نہیں دے گی۔ اُنھوں نے کہا کہ لوگوں کو جائز شکایات ہیں۔ اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ اُنھوں نے اور صدر مبارک نےلوگوں کی جائز شکایات کا مداوا کردیا ہے۔
اِس سے قبل، وائٹ ہاؤس پریس سکریٹری رابرٹ گِبز نے مصر میں ہونے والے پُر تشدد واقعات کی سخت الفاظ میں مذمت کی اورصحافیوں کودانستہ طور پر نشانہ بنانے کے واقعات کوسختی سے مکمل طور پر ناقابلِ برداشت قرار دیا۔
تجربہ کار امریکی سفارت کاراورسابق سفیر فرینک وِزنر جمعرات کی صبح قاہرہ سے واشنگٹن واپس پہنچے۔ قاہرہ میں اُنھوں نےامریکی حکومت کےاہم پیغامات صدر مبارک اور دیگر مصری عہدے داروں کے حوالے کیے۔
امریکی محکمہٴ خارجہ نے بتایا ہےکہ وِزنر نے امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن کواپنے دورے کے بارے میں بریف کیا ہے، تاہم یہ واضح نہیں کہ وہ صدر کو بھی بریف کریں گے۔
وزیرِ خارجہ کلنٹن نے کہا ہے کہ امریکہ صحافیوں کےخلاف کیے جانے والے حملوں کی مذمت کرتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ مصری حکومت اور فوج کی یہ ذمہ داری ہے کہ خطرے میں گھرے لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں اورمیڈیا پر حملوں کے ذمے داروں کا احتساب کریں۔
اُنھوں نے مصری حکومت اورمصری اپوزیشن کے وسیع تر اور بہترساکھ کےحامل نمائندوں ، سول سوسائٹی اور سیاسی دھڑوں کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کی ابتدا پر بھی زور دیا۔
وائٹ ہاؤس نے جمعرات دیر گئے صدر اوباما کی طرف سے یمن کے صدر علی عبد اللہ صالح کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی تفصیل فراہم کی، جہاں حکومت کی حمایت کرنے والوں اور مخالفت دھڑوں نے پُر امن مظاہرے کیے۔
ایک بیان کے مطابق، مسٹر اوباما نے یمن میں اہمیت کے حامل اصلاحاتی اقدامات کا خیرمقدم کیا اور صدر صالح کی طرف سے مزید قدم اٹھانے کے وعدے کو پورا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مسٹر اوباما نے یہ بھی کہا کہ یمنی سکیورٹی فورسز کو مظاہرین کے خلاف تشدد سےبازرپنا چاہیئے۔