اسرائیل اور حماس کے درمیان شروع ہونے والی جنگ میں آنے والی شدت نے جہاں مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کرلی ہے وہیں یہ تنازع ترکیہ اور اس کے صدر رجب طیب ایردوان کے لیے بھی ایک بڑا سفارتی چیلنج بنتا جارہا ہے۔
مبصرین کے مطابق صدر ایردوان کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ انہیں موجودہ صورتِ حال میں ایک طرف فلسطینیوں کے پُر زور حامی کے طور پر اپنا امیج برقرار رکھنا ہے ۔لیکن اس کے ساتھ حالیہ برسوں کے دوران اپنی جارحانہ سفارت کاری کو اعتدال پر لانے کی کوششوں کو بھی جاری رکھنا ہے۔
صدر ایردوان نے ترکیہ کے معاشی چیلنجز کے باعث 2021 میں امریکہ، روس اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں کا آغاز کیا تھا۔ جب کہ فلسطینیوں کی حمایت کے اپنے روایتی مؤقف کے باوجود انہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا شروع کردیے تھے۔
رواں برس ستمبر میں صدر ایردوان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائیڈ لائنز میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سے ملاقات کی تھی جس میں توانائی، ٹیکنالوجی، آرٹیفیشل انٹیلی جینس اور سائبر سیکیورٹی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون پر اتفاق کیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ برس مارچ میں اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ نے ترکیہ کا دورہ کیا تھا جس کے بعد دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے دورے بھی ہوئے تھے اور دو طرفہ تعلقات میں پیش رفت ہوئی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ بعض مبصرین غزہ میں جنگ کی بڑھتی ہوئی شدت کے ساتھ ایردوان کی اسرائیل پر تنقید میں تیزی تو آتی دیکھ رہے ہیں لیکن ماضی کے مقابلے میں ان کے رویے کو محتاط قرار دے رہے ہیں۔
ایردوان کا بدلتا ہوا مؤقف
صدر طیب ایردوان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ (اے کے) پارٹی نے گزشتہ ماہ 28 اکتوبر کو استنبول میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک بڑی ریلی کا اہتمام کیا تھا۔
اس عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان نے اسرائیل کو ’قابض‘ قرار دیا تھا اور غزہ میں اس کے حملوں کو جنگی جرائم کے مترادف کہا تھا۔ جب کہ انہوں نے اسرائیل پر حملہ کرنے والی فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے بارے میں کہا تھا کہ وہ دہشت گرد نہیں ہیں۔
اس سے قبل 25 اکتوبر کو اے کے پارٹی کے ارکانِ پارلیمنٹ سے خطاب میں انہوں نے حماس کے عسکریت پسندوں کو اپنی زمین کا دفاع کرنے والے ’مجاہدین‘ قرار دیا اور اسرائیل کے لیے مجوزہ دورہ بھی منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق اے کے پارٹی کی ریلی سے صدر ایردوان کی تقریر اب تک کی ان کی سب سے ’سخت تقریر تھی۔ جب کہ اے کے پارٹی کے ارکان سے ان کےخطاب کو بھی سخت ترین ردِ عمل کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
لیکن امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز (سی ایف آر) کے مطابق ترک صدر اسرائیل حماس جنگ پر اپنے مؤقف میں بتدریج تبدیلی لے کر آئے ہیں۔
سی ایف آر کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کو جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تو یہ صدر ایردوان کے لیے بھی دھچکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حملے کے فوری بعد اپنے اسرائیلی ہم منصب آئزک ہرزوگ سے رابطہ کیا تھا۔
مشرقِ وسطیٰ پر کام کرنے والے تھنک ٹینک ’عرب سینٹر واشنگٹن ڈی سی‘ کے فیلو مصطفیٰ گرباز نے گزشتہ ماہ اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ اس بار صدر ایردوان نے اسرائیل حماس جنگ میں بہت محتاط انداز میں بیانات دیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر اگرچہ ایردوان نے اسرائیل پر تنقید کی لیکن اپنا لہجہ محتاط رکھا ہے۔ ان کے بقول، صدر ایردوان کے سامنے ترکیہ کی معاشی بحالی کے اہداف تھے اور انہیں یہ بھی امید تھی کہ وہ جنگ میں ثالثی کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مصطفیٰ گرباز کا کہنا ہے کہ انقرہ واضح طور پر اسرائیلی یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا چاہتا تھا اور اس کے لیے فریقین سے تعلقات کو متاثر کیے بغیر آگے بڑھنا چاہتا تھا۔
امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق ترکیہ میں حماس کی عوامی حمایت اور اسرائیل کی غزہ پر جوابی حملوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کی وجہ سے ایردوان نے فوری اپنا مؤقف تبدیل کرنا شروع کیا اور غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں میں آنے والی شدت کے ساتھ ہی اسرائیل سے متعلق ایردوان کے لہجے میں بھی تلخی بڑھتی گئی۔
ثالثی کی خواہش
تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیل سے متعلق اپنے سخت بیانات کے باوجود ایردوان جنگ کے خاتمے یا کسی بھی طور پر مشرقِ وسطیٰ میں اپنا کردار برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
اس تاثر کی تائید صدر ایردوان کی اے کے پارٹی کے حامی تصور ہونے والے تھنک ٹینک ’سیٹا فاؤنڈیشن فور پولیٹیکل اکنامکس اینڈ سوشل ریسرچ‘ کے ڈائریکٹر آف فارن پالیسی ڈپارٹمنٹ محی الدین اتمان کے حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون سے بھی ہوتی ہے۔
محی الدین اتمان لکھتے ہیں کہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں عرب یا مسلم دنیا میں کوئی ایسی طلسماتی شخصیت نہیں جو غزہ میں جاری اسرائیل کی کارروائیوں کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام کرسکے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ماضی میں سعودی عرب کے فرماں روا شاہ فیصل بن عبدالعزیز ایسے لیڈر تھے جنہوں نے مسجد الاقصی پر اسرائیل کے حملے کے جواب میں اسلامی تعاون تنظیم کی بنیاد رکھی اور 1973 کی یوم کپور جنگ میں اسرائیل کو مدد فراہم کرنے والے مغربی ممالک کو تیل فراہم کرنے پر پابندی لگائی۔
وہ لکھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں صدر ایردوان اور ان کی حکومت نعم البدل ثابت ہوسکتے ہیں جو ٹھوس اقدامات اور خطے میں حقیقی امن بحال کرنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے سینئر فیلو کرنل ریٹائرڈ رچ اوٹزین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ایردوان نے اپنی جماعت اور حامی حلقوں میں حماس کی حمایت کی وجہ سے ابتدا میں اس کی پر زور الفاظ میں حمایت تو کی لیکن ساتھ ہی ان کی حکومت نے مبینہ طور پر ترکیہ میں موجود حماس کی قیادت کو آگاہ کردیا کہ وہ موجودہ صورتِ حال میں مزید تحفظ فراہم نہیں کرسکتے جو ایک طرح سے انہیں ملک سے جانے کا بین السطور پیغام تھا۔
رچ اوٹزین کے مطابق انقرہ کو اندازہ ہوگیا ہے کہ حماس کے رویے میں تبدیلی نہیں آ رہی اور وہ اس معاملے میں سیاسی گفت و شنید کے لیے آمادہ نہیں ہے۔
ان کے بقول انقرہ اسرائیل کے خلاف تند و تیز بیانات دینے کے ساتھ ساتھ حماس کی کارروائیوں کے دفاع سے بھی گریز کر رہا ہے کیوں کہ وہ فریقین کے ساتھ متوازن تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔
تعلقات میں دشواری
اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع میں توازن برقرار رکھنا ہمیشہ ترکیہ کے لیے ہمیشہ ہی سے چیلنج رہا ہے۔
اسرائیل کے قیام کے بعد 1949 میں ترکیہ وہ پہلا مسلم اکثریتی ملک تھا جس نے اسے تسلیم کیا۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان قریبی سفارتی، معاشی اور دفاعی تعلقات رہے۔
مسلح تنازعات اور اسٹریٹجک امور کور کرنے والے امریکی جریدے ’وار آن دی راکس‘ کے لیے اپنے ایک حالی مضمون میں جرمن تھنک ٹینک ’ایس ڈبلیو پی‘ سے منسلک ترک محقق صنم ادار لکھتی ہیں کہ طیب ایردوان کی اے کے پارٹی کے اقتدار میں آنے سے قبل بھی کئی مواقع پر ترکیہ نے فلسطینیوں کے ساتھ تنازع میں اسرائیل کی مخالفت کی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
صنم ادار لکھتی ہیں کہ ترکیہ کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرِ اعظم بلند ایجوت بھی اسرائیل اور فلسطینی شدت پسند عناصر کی سخت ناقد رہے تھے۔ جب کہ ایردوان کی اے کے پارٹی فلسطینی مسئلے کو دنیا بھر میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے ایجنڈے میں شامل کرتی ہے اور اسے قومی مسئلے کے بجائے امت کا مسئلہ قرار دیتی ہے۔
اس لیے 2020 میں جب ایردوان حکومت نے استنبول میں آیا صوفیا کو مسجد کے طور پر بحال کیا تھا تو طیب ایردوان نے اس موقعے پر مسجد اقصی کو اسرائیل سے آزاد کرانے کا اعلان کیا تھا۔
ان کے مطابق اے کے پارٹی کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون یہ ہے کہ ترکیہ کو دنیا میں امن کے قیام کے لیے بین الاقوامی سطح پر ثالث اور مصالحت کار کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ 2008 اور 2009 میں ترکیہ نے اسرائیل اور حماس کے درمیان یہ کردار ادا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کے نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
ایردوان 2009 میں ڈیوس میں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے دوران اسرائیلی صدر شمعون پیرز کے ساتھ ہونے والے ایک سیشن سے واک آؤٹ کرگئے تھے جس کے بعد استنبول میں ان کا شان دار استقبال کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے اگلے ہی برس مئی 2010 میں غزہ کی جانب امداد لے جانے والے بحری قافلے میں شامل ترکیہ کے بحری جہاز ماوی مرمرہ پر اسرائیلی کمانڈوز کی کارروائی میں نو ترک ایکٹوسٹ کی ہلاکت کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل کے وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔
اس واقعے کے بعد طویل عرصے تک ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں سرد مہری رہی تاہم 2021 میں ایک بار پھر بحالی کا آغاز ہوا۔
صنم ادار کے مطابق اب ایک طرف صدر ایردوان کو اپنا مسلم لیڈر کا امیج برقرار رکھنا جب کہ دوسری جانب 2020 سے ترکیہ کی سفارتی تنہائی کو دور کرنے کے لیے جاری ان کی کوششیں داؤ پر لگی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق ترکیہ نے اپنی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے اسرائیل سمیت علاقائی سطح پر اپنے سفارتی تعلقات بحال کرنے کے لیے گزشتہ کچھ عرصے میں اسلام پسند عرب گروپس سے دوری اختیار کرنا شروع کی تھی۔
اس پالیسی کے تحت ترکیہ کی حکومت نے مصر کی اسلامسٹ جماعت اخوان المسلمون کے نشریاتی اداروں کو مصر کے خلاف تنقید میں نرمی لانے کی ہدایت کی تھی۔ بعدازاں 2022 میں ترکیہ سے چلنے والے چینل ’مکالمین‘ نے استنبول میں اپنے آٹھ اسٹوڈیوز بند کردیے تھے۔
اسی طرح اپریل 2022 میں ایک ترک عدالت نے ترکیہ میں قتل ہونے والے سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل کے ایک ملزم کا مقدمہ سعودی عرب منتقل کردیا تھا۔
صنم ادار کے مطابق اس لیے صدر ایردوان کو یہ چیلنج درپیش ہوگا کہ اپنی جماعت اور حلقہ انتخاب میں حماس کی مقبولیت کے باوجود انہیں اس سے فاصلہ برقرار رکھنا پڑے گا۔
امریکہ، اسرائیل اور ترکیہ
ایردوان کو حماس سے فاصلہ اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سخت بیانات کی وجہ سے اسرائیل بہتر ہوتے تعلقات میں بھی بڑھتی ہوئی کشیدگی کا سامنا ہے۔ 28 اکتوبر کو عوامی ریلی سے خطاب صدر ایردوان کے تند و تیز خطاب اور جنگی جرائم کے الزاماتا کے بعد اسرائیل نے ترکیہ سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلالیا ہے۔
ترکیہ کے اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بھی تناؤ بڑھ رہا ہے۔ حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد گزشتہ بعد امریکہ کی جانب مغربی بحیرۂ روم میں اپنے دو بڑے طیارہ بردار بحری بیڑے بھیجنے پر صدر ایردوان نے شدید تنقید کی تھی۔
کونسل آن فورن ریلیشنز کے مطابق یوکرین جنگ کے بعد سوئیڈن اور ناروے کے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں شمولیت سے متعلق صدر ایردوان نے جو سخت موقف اختیار کیا تھا اس کی وجہ سے امریکہ کی بائیڈن حکومت اور ان کے درمیان فاصلے بڑھے۔ اس کے علاوہ شام میں بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار گروپس کی حمایت کر رہے ہیں۔
غزہ میں جاری بحران سے متعلق تاحال ترکیہ کے کردار پر امریکہ کی جانب سے بھی کوئی اشارہ سامنے نہیں آیا ہے۔ اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد جب سفارتی رابطے کے لیے امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے خطے کے ممالک کے دورے کیے تو ان میں ترکیہ شامل نہیں تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سی ایف آر کے مطابق طیب ایردوان غزہ کی صورتِ حال کے لیے امریکہ کو بھی جزوی ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔ان کے ایسے بیانات کی وجہ سے ہونے والے عوامی احتجاج کے بعد جنوب مشرقی ترکیہ میں ملاتیا کے مقام پر امریکہ کی ایک ریڈار بیس اور جنوبی ترکیہ کے شہر ادانا میں امریکی قونصلیٹ بند کرنا پڑا۔
اپنی رپورٹ میں سی ایف آر کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں غزہ میں جاری بحران طول پکڑتا نظر آتا ہے اس لیے اسرائیل اور امریکہ دونوں کے ساتھ ترکیہ کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔
اس لیے مستقبل میں امکان یہی ہے کہ صدر ایردوان کا بیانات میں مزید سختی آئے گی جس کی وجہ سے ترکیہ کے مستقبل میں واشنگٹن کے شروع کیے گئے کسی تصفیے کا حصہ بننے کے امکانات بہت کم ہوجائیں گے۔
بیانات اور عمل ؟
صدر ایردوان اسرائیل پر تنقید کے ساتھ ساتھ غزہ میں جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں۔ اس کےساتھ ہی انہوں نے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر غزہ کی پٹی کے لیے ایک دفاعی میکنزم بنانے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔
اٹلانٹک کونسل کے سینئر فیلو رچ اوٹزن کا کہنا ہے کہ ترکیہ موجودہ بحران میں اپنی محدودات کی وجہ سے غزہ میں بعد از جنگ تعمیر و ترقی اور مصالحت کے کردار ہی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایردوان کو اپنے تجربے سے اندازہ ہوچکا ہےکہ اسرائیل اور قاہرہ کے ساتھ مثبت ورکنگ ریلشنز نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس جنگ کے بعد اپنا کردار ادا نہیں کر پائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
صنم ادار کے مطابق حماس کے ساتھ انقرہ کے تعلقات بھی کار آمد ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ جرمن وزارتِ خارجہ کے مطابق وہ حماس سے جرمن یرغمالیوں کی آزادی کے لیے قطر اور ترکیہ سے رابطے میں ہیں۔ تاہم تا دم تحریر اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
ترک وزیرِ خارجہ خاقان فیدان خطے کے کئی ممالک سے رابطے میں ہیں۔ ترکیہ جنگ کو روکنے کے لیے ایران کے ساتھ مل کر علاقائی کانفرنس اور جمعے کو ایک بین الاقوامی اجلاس بلانے پر بھی زور دے رہا ہے۔
تاہم صنم ادار کے مطابق اسرائیل حماس جنگ میں کسی بھی فریق پر بہت گہرا اثر و رسوخ نہیں رکھتا اور نہ ہی دفاعی طور پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
ان کے بقول ترکیہ کے معاشی مسائل اپنی جگہ ہیں اور گزشتہ دہائی میں اس نے اپنی خارجہ پالیسی کی جو قیمت ادا کی ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ صرف بیانات اور سفارتی رابطوں تک محدود رہے گا۔
کرنل ریٹائرڈ رچ اوٹزن کے مطابق موجودہ حالات میں یہی لگتا ہے کہ صرف دو ریاستی حل پر زور دینا ہی ترکیہ کی سفارت کاری کا مرکزی نکتہ رہے گا۔ تاہم اس تنازع میں آگے چل کر ترکیہ کیا کردار ادا کرتا ہے؟ کیا وہ اسرائیل اور فلسطینیوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے یا نہیں؟ ان باتوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ صدر ایردوان صرف سخت بیانات تک محدود رہیں گے؟اور کیا وہ حماس سے فاصلہ بڑھانا روک دیں گے؟