افغانستان میں طالبان کی طرف سے بڑھتی ہوئی کارروائیاں اور دارالحکومت کابل میں حریف لسانی گروہوں کے مابین فائرنگ کے تبادلے کا واقعہ 1990ء کی دہائی میں افغانستان کے خانہ جنگی کی بازگشت ہے، جو صدر اشرف غنی کے برسر اقتدار آنے کے دو سال بعد بھی انہیں درپیش خطرات کا مظہر ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ کے مطابق قبل ازیں رواں ماہ دارالحکومت کابل میں سابق تاجک بادشاہ کی دوبارہ تدفین پر تنازع شروع ہو گیا، اگرچہ تاریخی طور ان کا شمار افغانستان کے نمایاں بادشاہوں میں نہیں ہوتا ہے تاہم اس معاملے کی وجہ سے لسانی گروپوں کے درمیان مخاصمت کھل کر سامنے آ گئی جو اکثر دبی رہتی ہے۔ ایسی کشیدگی کی وجہ مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے افغانوں کے مابین کئی عشروں تک جاری رہنے والے تنازعات ہیں۔
دوسری طرف برسلز میں افغانستان کو امداد فراہم کرنے والے ملکوں اور اداروں کی ایک بڑی کانفرنس کے انعقاد سے چند ہفتے قبل طالبان کی کارروائیوں میں بھی تیزی آئی ہے۔
گزشتہ جمعرات کو طالبان جنگجو اورزگان صوبے کے ترین کوٹ ضلع کے مرکز تک پہنچ گئے۔ اگرچہ باغیوں کو شہر سے باہر دھکیل دیا گیا لیکن یہاں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ شہر میں ویرانی کا سماں ہے سڑکوں پر آمد و رفت نہیں ہے اور دوکانیں بند ہیں۔
اورزگان صوبے کے علاوہ جنوب میں ہلمند اور شمال میں واقعہ صوبہ قندوز کو بھی لڑائی کا سامنا ہے اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ چند ماہ کے دوران دارالحکومت کابل میں ہوئے کئی حملے اس بات کا مظہر ہیں کہ طالبان کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے پندرہ سال بعد بھی افغان حکومت ملک میں سکیورٹی کو پوری طرح بحال کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
افغان سکیورٹی عہدیدار اور نیٹو فورسز عید کے بعد ممکنہ حملوں کے خدشے کے پیش نظر چوکنا ہیں۔
اس تمام صورت حال کے تناظر میں افغان حزب مخالف نے کھلم کھلا صدر غنی کے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ تو نہیں کیا ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس سے اقتدار کا خلا ایک ایسے وقت پیدا ہو سکتا ہے جب طالبان کی شورش میں زیادہ شدت پیدا ہو رہی ہے۔
2014ء کے متنازع صدارتی انتخاب کے بعد اگرچہ اشرف غنی اپنے حریف عبداللہ عبداللہ کے ساتھ شراکت اقتدار پر متفق ہو گئے تھے تاہم ستمبر کا مہینہ اس حتمی مدت کا آخری مہینہ ہے جب صدر غنی کی حکومت نے آئینی ڈھانچے میں تبدیلیاں کرنی تھیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ لوگ ان کی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں، صدر غنی کے (بطور صدر کام کرنے کے) قانونی استحقاق پر زد پڑے گی۔
واشنگٹن میں قائم یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے افغانستان اور وسطی ایشیا کے پروگرام کے ڈائریکٹر اسکاٹ ورڈن نے کہا کہ "اس معاملے کو سنبھالا جا سکتا ہے تاہم ستمبر میں اس بات کا خطرہ زیادہ نظر آتا ہے کہ یہ معاملہ کہیں ہاتھ سے نا نکل جائے"۔
صدر اشرف غنی کو افغانستان کے ایک بڑے اتحادی امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔
وزیر خارجہ جان کیری نے اپریل میں کہا تھا کہ واشنگٹن نہیں سمجھتا ہے کہ اس ڈیڈ لائن کی پابندی ضروری ہے اور وہ توقع کرتے ہیں کہ حکومت اپنی پانچ سال کی پوری مدت مکمل کرے گی۔
تاہم ایسا ہوتا ہے یا نہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ صدر غنی اپنے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ساتھ معاملات کس طرح طے کرتے ہیں، جنہوں نے حال ہی میں صدر غنی پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اپنے وزرا کی بات نہیں سنتے اور وہ اپنے عہدے پر برقرار رہنے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔
رائیٹرز کے مطابق دونوں رہنماؤں کے اعلیٰ معاونین کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی ملاقاتوں کے بعد اپنے اختلافات کو حل کر لیا ہے اور اتحادی حکومت کو کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔
حکومت کے ترجمان شاہ حسین نے کہا کہ " اب ایک بہتر تفہیم اور (باہمی) اتفاق کی فضا ہے"۔
" جو کچھ آپ کو ذرائع ابلاغ میں نظر آتا ہے وہ حقیقت کا عکاس نہیں ہے"۔
اگرچہ سلامتی کے خدشات کو دور کرنا اور روزگار کے مواقع بڑھانا حکومت کی اولین ترجیح ہے تاہم یہ دونوں معاملے نسلی کشیدگی کو دبائے رکھتے ہیں جس کا اظہار ایک تاجک حبیب اللہ کالاکانی کی دوبارہ تدفین کے تنازع پر ہوا، وہ 1929ء میں ایک مختصر عرصے کے لیے افغانستان کا بادشاہ بن گیا تھا۔
اگرچہ بالآخر اس معاملے کو سلجھا لیا گیا تاہم اس تنازع کی وجہ سے تاجک اور نائب صدر رشید دوستم جو ایک ازبک ہیں ان کے حامیوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔
رشید دوستم کے حامیوں کے حبیب اللہ کی دوبارہ تدفین کے مقام سے متعلق خدشات تھے۔
اگرچہ حزب مخالف یہ نہیں چاہتی کہ وہ حکومت کو غیر مستحکم کرے، تاہم خدشات اب بھی برقرار ہیں۔
جولائی میں کابل میں شیعہ ہزارہ براداری کے ایک احتجاجی مظاہرے پر ہوئے حملے جس میں اسی سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جس کے بعد عسکریت پسندوں کے طرف سے روا رکھے جانے والے تشدد کے علاوہ نسلی بنیادوں پر قتل وغارت کے خدشات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے۔
تازہ ترین تنازع کی وجہ سے نا صرف تاجک اور ازبک برادری بلکہ تاجک اور پشتون اکثریتی گروپوں کے درمیان تلخ بیانات کا تبادلہ ہوا۔
اس کے علاوہ ہزارہ برادری کی طرف سے بھی اپنی سلامتی سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے جنہیں ایک طویل عرصے سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
اس تمام صورت حال کا اظہار ٹی وی چینل اور سماجی میڈیا پر بھی کیا جا رہا ہے جس میں مختلف افغان نسلی گروہ ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہیں۔
اس تمام تر صورت حال کے تناظر میں غیر ملکی ڈونر افغانستاں کے لیے امداد کی منظوری دینے کے لیے اکتوبر میں برسلز میں ہونے والے ایک اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اگرچہ انہوں نے یہ پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ وہ آئندہ سالوں کے لیے افغانستان کو درکار اربوں ڈالر کی امدد کی فراہمی جاری رکھیں گے۔
افغان حکومت کے ترجمان شاہ حسین نے کہا کہ،" ہم نے زیادہ تر اہداف حاصل کر لیے ہیں اور ہم باقی اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں"۔