امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ نے چین کے کئی عہدیداروں پر ویغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ ویغور مسلمان چین کے سنجیانگ صوبے میں آبادی کا اقلیتی گروہ ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکی پابندیاں اس کے اتحادیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہیں۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ ہمارے شراکت داروں نےسنکیانگ اور دیگر ممالک میں انسانی حقوق پامال کرنے اور دیگر ظالمانہ کاروائیاں کرنے والوں کے خلاف بھی اقدامات کئے ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ نے پیر کے روز چین کے دو عہدیداروں کے خلاف پابندیاں عائد کر نے کا اعلان کیا ہے، جن میں صوبہ سنکیانگ میں پارٹی کے سابق نائب سیکرٹری وینگ جنزہینگ اور سنکیانگ کے پبلک سیکیورٹی بیورو کے ڈائیریکٹر چین مِن گُو او شامل ہیں۔
ادھر یورپی یونین کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے اپنے اجلاس میں چین کے ساتھ ساتھ میانمار اور روس کے خلاف بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔ یورپی یونین ملکوں کے 27 رکنی بلاک نے ویغور مسلمانوں پر چین کے جبرو استبداد کی وجہ سے چین کے عہدیداروں اور سرکاری تحویل میں چلنے والے ایک ادارے پر وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پابندیوں کی منظوری دی ہے۔
یہ پہلی دفعہ ہے کہ یورپی یونین نے چین پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے پابندیاں عائد کی ہیں۔ اس سے پہلے چین کے تائینامین چوک میں 1989 میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد، چین کو اسلحہ کی فروخت بند کر دی گئی تھی۔
چین کی وزارتِ خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ وہ صوبہ سنکیانگ میں اپنے اقدامات پر کوئی پابندی عائد کئے جانے پر، سخت ردِ عمل کا اظہار کرے گا۔
اے ایف پی کے مطابق، یور پی یونین کی پابندیوں کا اطلاق، روس، شمالی کوریا، ایریٹریا، جنوبی سوڈان اور لیبیا کے درجن بھر افراد پر بھی کیا گیا ہے۔
سلو ویکیا کے وزیر خارجہ، آئیون کورچوک کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی اہم قدم ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ یورپی یونین انسانی حقوق کے احترام کی کتنی قدر کرتی ہے۔
پابندیاں عائد کرنے کے اقدامات کا آغاز اس ماہ کیا گیا جب روس میں اپوزیشن رہنما الیکسی ناویلنی کو بے جا جیل میں بند کرنے پر چار روسی عہدیداروں کے خلاف پابندیاں عائد کی گئیں۔
یورپی یونین کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ کا کہنا تھا کہ روس کے مزید افراد پر پابندیاں چیچنیا کے علاقے میں حقوق کی پامالیوں پر عائد کی جائیں گی۔
یورپی یونین نے میانمار میں فوجی بغاوت اور مظاہرین کی متشدد پکڑ دھکڑ میں ملوث گیارہ عہدیداروں پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔
جرمنی کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جو کچھ میانمار میں ہو رہا ہے وہ ناقابلِ قبول ہے۔
یورپی یونین کا کہنا تھا کہ میانمار کی فوج کے ساتھ کاروباری لین دین پر بھی آئندہ ہفتوں میں پابندیاں لگنے کا امکان ہے۔