یورپی یونین کے رہنماؤں نے جمعہ کو علی الصبح برسلز میں ہونے والے ایک سربراہی اجلاس میں اس بارے میں بحث کی کہ براعظم یورپ کو درپیش تارکین وطن کے بحران سے کس طرح مشترکہ طور پر نمٹا جائے۔
اجلاس میں 60 ہزار تارکین وطن کی آباد کاری پر اتفاق کیا گیا ہے۔
یورپی یونین کے دو ممالک اٹلی اور یونان فی الحال ان ہزاروں تارکین وطن کا بوجھ اٹھا رہے ہیں جو شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے جنگ اور غربت کی وجہ سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔
ان تارکین وطن کو یونان اور اٹلی کے ساحلی علاقوں کے قریب پرانی کشتیوں سے بچایا جا رہا ہے جبکہ اٹلی اور یونان کی حکومت امداد کی اپیل کرتی آ رہی ہیں۔
یورپی یونین کے ممالک نے ایک رضاکارانہ معاہدے پر اتفاق کیا جس کے تحت یونان اور اٹلی پہنچنے والے 40,000 تارکین وطن کو آئندہ دو سال کے دوران یورپی یونین کے دوسرے ممالک میں منتقل کیا جائے گا۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مزید 20,000 کو بھی آباد کیا جائے گا۔ یورپی یونین کے وزرائے داخلہ اس معاہدے کو جولائی کے اواخر تک حتمی شکل دیں گے۔
جرمن چانسلر آنگیلا مرخیل نے کہا کہ "میرے خیال میں جب سے میں اپنے عہدے پر فائز ہوں تارکین وطن کا معاملہ یورپی امور کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے"۔
یورپی کمیشن کے صدر جین کلاڈ جنکر نے کہا کہ "یہ حقیقت ہے کہ ہم نے ایک نظام کو قائم کرنے کے لیے کئی گھنٹے صرف کیے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ کا طرز عمل ان اقدار کے مطابق نہیں ہے جس کو یہ ہر اس وقت آگے بڑھاتا ہے جب یہ غیر ممالک میں بات کرتا ہے"۔
جین نے مزید کہا کہ "اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا آیا یہ رضاکارانہ ہے یا لازمی ہے کیا یہ 60,000 پناہ گزینوں کی مدد کر سکتا ہے"۔
ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن بحیرہ روم کو پار کرنے کی کوشش میں جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ ان میں کئی ایک انسانی اسمگلروں کو رقم بھی ادا کرتے ہیں جو انہیں سمندروں میں چھوڑ جاتے ہیں۔