فرانس اور جرمنی کے دبائو پر یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ آئندہ ہفتے ہونے والے اپنے ایک اجلاس میں پابندی کے خاتمے کی تجویز پر دوبارہ غور کریں گے۔
واشنگٹن —
یورپی ممالک نے شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کی درخواست پر فیصلہ موخر کردیا ہے۔
برسلز میں جمعے کو اختتام پذیر ہونے والے یورپی یونین کے سربراہ اجلاس کے ایجنڈے میں شام کا مسئلہ شامل نہیں تھا تاہم اتحاد کے دو بڑے رکن ممالک برطانیہ اور فرانس کے دبائو پر یورپی رہنمائوں نے شام میں جاری بحران پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
برطانیہ اور فرانس کا کہنا ہے کہ وہ دونوں مشترکہ طور پر 27 رکنی یورپی یونین کو اس بات پر قائل کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے کہ شام کو ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی ختم کردی جائے۔
پابندی کے خاتمے کے نتیجے میں شام کے صدر بشارالاسدکی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو یورپی ممالک کی جانب سے اسلحے کی فراہمی کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
یورپی سربراہ اجلاس کے موقع پر اپنی تجویز کی حمایت میں خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ شامی باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ وہاں جاری بحران کے سیاسی حل کی کوششیں ترک کردی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی حل کی اہمیت اور ضرورت اس وقت زیادہ محسوس کی جائے گی جب لوگ شامی حزبِ اختلاف کے اعتماد اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتے دیکھیں گے۔
یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک – خصوصاً معاشی طور پر مضبوط جرمنی - کو شامی باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کی اس تجویز پر سخت تحفظات ہیں۔
لیکن اجلاس کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یورپی یونین کے صدر ہرمن وین رومپی نے اس معاملے پر رکن ممالک کے مابین اختلافات کو معمولی مسئلہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ تنظیم کے رکن ممالک کے مابین کسی مسئلے پر اختلاف ہونا معمول کی کاروائی اور جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ ان کے بقول ماضی میں لیبیا کے بحران پر بھی یورپی ممالک کے درمیان ابتدا میں سخت اختلافات تھے تاہم بعد میں سب نے متفقہ طور پر اس بارے میں تنظیم کے ردِ عمل کی منظوری دی تھی۔
فرانس کے صدر فرانسس اولاں نے بھی رکن ممالک کے درمیان موجود اختلافات پر مثبت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ کئی یورپی ممالک شام کو ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن شامی باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے پر بھی کئی تحفظات موجود ہیں جنہیں دور کیا جانا ضروری ہے۔
خیال رہے کہ شام کو اسلحے کی فراہمی پر عائد یورپی یونین کے پابندی مئی کے اختتام پر ازخود غیر موثر ہوجائے گی۔ لیکن برطانیہ اور فرانس کا اصرار ہے کہ تنظیم اس معاملے پر جلد فیصلہ کرے تاکہ شام میں دو سال سے جاری خانہ جنگی اور بحران کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ سکے۔
ان دونوں ممالک کے اصرار کے باعث یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ آئندہ ہفتے آئرلینڈ میں ہونے والے اپنے ایک اجلاس میں پابندی کے خاتمے کی تجویز پر دوبارہ غور کریں گے۔
برسلز میں جمعے کو اختتام پذیر ہونے والے یورپی یونین کے سربراہ اجلاس کے ایجنڈے میں شام کا مسئلہ شامل نہیں تھا تاہم اتحاد کے دو بڑے رکن ممالک برطانیہ اور فرانس کے دبائو پر یورپی رہنمائوں نے شام میں جاری بحران پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
برطانیہ اور فرانس کا کہنا ہے کہ وہ دونوں مشترکہ طور پر 27 رکنی یورپی یونین کو اس بات پر قائل کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے کہ شام کو ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی ختم کردی جائے۔
پابندی کے خاتمے کے نتیجے میں شام کے صدر بشارالاسدکی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو یورپی ممالک کی جانب سے اسلحے کی فراہمی کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
یورپی سربراہ اجلاس کے موقع پر اپنی تجویز کی حمایت میں خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ شامی باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ وہاں جاری بحران کے سیاسی حل کی کوششیں ترک کردی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی حل کی اہمیت اور ضرورت اس وقت زیادہ محسوس کی جائے گی جب لوگ شامی حزبِ اختلاف کے اعتماد اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتے دیکھیں گے۔
یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک – خصوصاً معاشی طور پر مضبوط جرمنی - کو شامی باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کی اس تجویز پر سخت تحفظات ہیں۔
لیکن اجلاس کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یورپی یونین کے صدر ہرمن وین رومپی نے اس معاملے پر رکن ممالک کے مابین اختلافات کو معمولی مسئلہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ تنظیم کے رکن ممالک کے مابین کسی مسئلے پر اختلاف ہونا معمول کی کاروائی اور جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ ان کے بقول ماضی میں لیبیا کے بحران پر بھی یورپی ممالک کے درمیان ابتدا میں سخت اختلافات تھے تاہم بعد میں سب نے متفقہ طور پر اس بارے میں تنظیم کے ردِ عمل کی منظوری دی تھی۔
فرانس کے صدر فرانسس اولاں نے بھی رکن ممالک کے درمیان موجود اختلافات پر مثبت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ کئی یورپی ممالک شام کو ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن شامی باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے پر بھی کئی تحفظات موجود ہیں جنہیں دور کیا جانا ضروری ہے۔
خیال رہے کہ شام کو اسلحے کی فراہمی پر عائد یورپی یونین کے پابندی مئی کے اختتام پر ازخود غیر موثر ہوجائے گی۔ لیکن برطانیہ اور فرانس کا اصرار ہے کہ تنظیم اس معاملے پر جلد فیصلہ کرے تاکہ شام میں دو سال سے جاری خانہ جنگی اور بحران کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ سکے۔
ان دونوں ممالک کے اصرار کے باعث یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ آئندہ ہفتے آئرلینڈ میں ہونے والے اپنے ایک اجلاس میں پابندی کے خاتمے کی تجویز پر دوبارہ غور کریں گے۔