بیلا روس میں روس کی 10 روزہ  بڑی فوجی مشقیں شروع ،  یوکرین کی  شدید مذمت 

بیلا روس میں ہونے والی روس کی فوجی مشقوں میں زمین سے فضا میں مار کرنے والا جدید ایس ۔ 400 میزائل سسٹمز بھی شامل ہیں۔

روس نے جمعرات کو بیلاروس میں بڑی سطح کی 10 روزہ جنگی مشقوں کا آغاز کردیا ہے اور ساتھ ہی دفاعی اہمیت کے حامل بحر اسود کی بندرگاہ پراپنے چھ بحری جہاز لنگر انداز کر دیے ہیں، جس کی یوکرین کے اہل کاروں نے شدید مذمت کی ہے۔ یوکرین کے اہل کاروں نے کہا ہے کہ روس کے ان تازہ اقدامات کی وجہ سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھے گی۔

بیلاروس میں روسی جنگی مشقوں میں ہزاروں کی تعداد میں فوجی حصہ لے رہے ہیں، جب کہ علاقے میں ایس۔ 400 زمین سے فضا میں مار کرنے والے جدید ترین میزائل سسٹم ، 'پانسیر ایئر ڈیفنس سسٹمز ' اور ایس یو ۔35 جیٹ طیاروں کے بیڑے موجود ہیں۔ یہ جنگی مشقیں یوکرین کے دارالحکومت کیف سے محض 210کلومیٹر شمال میں کی جارہی ہیں۔

روسی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ کرائمیا کے سواسٹاپول کی بندرگاہ پر چھ بحری جہاز لنگرانداز ہیں، یہ وہ علاقہ ہے جسے روس نے 2014ء میں ضم کر لیا تھا۔ روسی حکام نے انھیں بحری مشقوں کا نام دے رکھا ہے، اور ان مشقوں کے لیے بالٹک سمندر کے ذریعے 13 ہزار کلومیٹر علاقے کا سفر کیا گیا ہے۔ یہ روسی بحری جہاز فوجیوں کی نقل و حمل ، بکتربند گاڑں اور ہتھیار پہنچانے کے کام آتے ہیں۔

ماسکو اور منسک میں حکام نے کہا ہے کہ 20 فروری کو جنگی مشقوں کے اختتام کے بعد روسی فوجی بیلاروس سے واپس چلے جائیں گے۔ لیکن، مغربی اہل کاروں کو خدشہ ہے کہ فوج کی یہ تعیناتی یوکرین پر روسی حملے پر منتج ہوسکتی ہے، جو کسی وقت سابق سویت جمہوریہ کا حصہ تھا۔ روس نے پہلے ہی یوکرین کے مشرقی علاقے میں ایک لاکھ سے زائد فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔

یوکرین میں لوگوں نے اپنے دفاع کے لیے ہتھیاروں کی تربیت حاصل کرنا شروع کر دی ہے۔

یوکرین کی مذمت اور جوابی فوجی مشقیں

یوکرین کے عہدے داروں نے بھی جمعرات سے اپنی دفاعی مشقیں شروع کردی ہیں۔ انھوں نے روسی بحریہ کی جنگی مشقوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مشقیں سلامتی کی صورت حال کو تباہ کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ یوکرین نے روس پر الزام لگایا ہے کہ کھلے سمندر کے اس خطے میں میزائل اور توب خانے کی تربیتی فائرنگ کرنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔

ایک بیان میں یوکرین کے وزیر دفاع، اولیسکی ریزنوف نے کہا ہے کہ یہ کارروائیاں یوکرین کی علاقائی بحری حدود میں کی جارہی ہیں جس سے یوکرین کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہے، جس کے آبی معاشی زون پر اسے خودمختاری کے حقوق حاصل ہیں۔ اس علاقے کے بحری راستوں کو بند کرکے روسی فیڈرشن نے یوکرین کی بندرگاہوں پر نقل و حمل کو ناممکن بنا دیا ہے، خاص طور پر ازوف کے سمندر کے علاقے کو بند کردیا گیاہے۔

ادھر کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس الزام کو مسترد کر دیا کہ جنگی مشقوں کے نتیجے میں سمندر کی تجارتی نقل کو حرکت میں کوئی فرق پڑ سکتا ہے۔

SEE ALSO: یوکرین تنازع: امریکہ مزید دو ہزار فوجی پولینڈ اور جرمنی بھیجےگا، پینٹاگان

روسی تجاویز پر یورپی یونین کا مشترکہ جوابی مراسلہ

یورپی یونین نے کہا ہے کہ 27 ملکی اتحاد کے وزرائے خارجہ کی جانب سے روس کو جمعرات کے دن ایک مشترکہ مراسلہ پیش کیا گیا ہے جس میں روسی تجاویز کا جواب دیا گیا ہے۔ اسی دوران، یوکرین کے معاملے پر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ یوکرین کے بحران کی صورت میں ''کئی عشروں بعد یورپ ایک بار پھر ایک خطرناک ترین موڑ پر کھڑا ہے''، جب کہ آج ماسکو میں روسی حکام سے یوکرین کے بحران پر بات چیت جاری ہے۔

رائٹرز کی خبر کے مطابق، اس سے قبل جمعرات ہی کے روز روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ جنوری کے اواخر میں ان کی جانب سے یورپی یونین کے 27 ملکی اتحاد کو دی گئی تجاویز پر موصول ہونے والا مشترکہ جوابی مراسلہ مذاکرات میں تعطل کا باعث بن سکتا ہے۔

ادھر یورپی یونین کے سفارت کاروں نے رائٹرز کو بتایا کہ لاوروف کی جانب سے بھیجے گئے انفرادی خطوط کا مقصد 27 رکنی بلاک میں دراڑیں ڈالنا تھا، جو روس سے متعلق مختلف رائے رکھتے ہیں، یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کہ یوکرین کے نئے تنازعے کے معاملے پر روس کے خلاف معاشی پابندیاں عائد کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔

یورپی یونین کے منتظم ادارے، یورپی کمیشن نے کہا ہے کہ ادارے کے خارجہ پالیسی کے سربراہ، جوزپ برویل نے فیصلہ کیا تھا کہ اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام ارکان کی جانب سے ایک ہی جوابی مراسلہ تحریر کیاجائے گا۔

SEE ALSO: روس یورپ گیس پائپ لائن کیوں خبروں میں رہتی ہے؟

کمیشن کے ترجمان نے روزانہ کی اخباری بریفنگ کے دوران بتایا کہ ''یورپی یونین کے رکن ملکوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ 27ارکان کی جانب سے وزیر خارجہ لاوروف کو ایک ہی پیغام بھیجا جائے''۔

روسی سفارت خانہ برائے یورپی یونین نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ اسے مراسلہ موصول ہوگیا ہے۔

دونوں فریقوں نے لاوروف کے مراسلوں کے مندرجات کی تفصیل بیان نہیں کی۔ لیکن سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ان میں روس کی مغربی سرحدوں کی سیکیورٹی اور یورپی یونین کی جانب سے تناؤ کا سفارتی حل نکالنے سےمتعلق روس کی تشویش کا اظہارشامل تھا۔

ادھر ایسو سی ایٹڈ پریس نے خبر دی ہے کہ ایسے میں جب برطانیہ کی سفارت کار ماسکو میں اپنے ہم منصب سےیوکرین کے بحران پر بات چیت کر رہی ہیں، روسی افواج نے یوکرین کے شمال میں واقع بیلاروس میں دفاعی مشقیں جاری رکھی ہیں، جب کہ روس نے پہلے ہی سرحد پر ایک لاکھ سے زائد فوج تعینات کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں مغربی ملک یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ روس یوکرین پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔

SEE ALSO: یوکرین تنازع: اعلیٰ روسی کمانڈر دس روزہ فوجی مشقوں کے لیے بیلارس پہنچ گئے

دوسری جانب، نیٹو نے بھی اتحاد کے مشرقی خطے میں فوج کی تعداد میں اضافہ کردیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم جانسن نے کہا ہے کہ ان کے خیال میں صدر ولادیمیر پوتن نے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ یوکرین کے خلاف کیا اقدام کریں گے۔ لیکن انھوں نے مزید کہا کہ سفارت کاری کے علاوہ مغرب کو چاہیے کہ وہ پابندیوں اور فوجی نوعیت کا جواب تیار رکھے۔

امریکہ کی جانب سے پولینڈ اور رومانیہ فوج روانہ کرنے کے بعد، اطلاعات کے مطابق نیٹو نے مشرق میں واقع خطے میں اپنے دفاع کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔

اس سلسلے میں، برطانوی رائل ایئرفورس کا ایک جیٹ طیارہ 350 تازہ دم فوجیوں کے دستے کو لیے جمعرات کو پولینڈ میں اترا، اس سے قبل برطانیہ نے یوکرین کو ٹینک شکن میزائل بھجوائے تھے، جس کا مقصد دفاع کو مضبوط بنانا ہے۔

(اس خبر میں شامل مواد رائٹرز، اے ایف پی اور ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)