انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد اور بحران سے نبردآزما ہونے کے کام پر مامور انتظامیہ کے یورپی کمشنر نے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا میں پناہ گزینوں کے بحران، لڑائی اور غربت کے ’بنیادی اسباب‘ سے نمٹنے کے لیے ’سیاسی حل‘ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
سربیا کے وزیر اعظم کرسٹوس اسٹیالینڈز سے ملاقات کے بعد، بلغراد میں جمعے کے روز بات کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ یورپی اداروں نے شام میں سخت کوشش جاری رکھی ہے کہ لوگوں کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ اپنے ملک ہی میں رہیں۔
کرسٹوس نے کہا ہے کہ ’ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم ہجرت کے بحران کے بنیادی اسباب پر دھیان مرکوز رکھیں‘۔
بقول اُن کے، ’ہمیں چاہیئے کہ ہم شام، افغانستان اور عراق کے اندر ہی سیاسی حل کی جانب توجہ دیں۔۔۔ہم نے شام میں سخت کوشش کی ہے جس کا مقصد تعلیم کے ذریعے وہاں بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ہی نہیں بلکہ امداد کی فراہمی اور آگہی کے ذریعے، تاکہ مہاجرین کی عزت نفسی پر حرف نہ آئے اور اُنھیں اس بات پر قائل کیا جاسکے کہ وہ اپنے ہی وطن میں رہیں‘۔
سربیا کے وزیر اعظم الیگزینڈر وکی نے کہا ہے کہ پناہ گزیں اور مہاجرین کو تحفظ کی فراہمی کے حوالے سے اُن کا ملک تمام فرض پورے کرے گا۔
حالانکہ، سرد موسم کے باعث، سربیا میں تارکینِ وطن کی آمد کا سلسلہ کم ہوگیا ہے، پھر بھی بلکان میں سرحد پار کرنے والوں کی یومیہ آمد 2500 ہے۔
وکی نے یورپی یونین سے اپیل کی کہ بحران سے نمٹنے کے لیے ایک یکساں مؤقف اپنایا جائے، تاکہ بلکان کے راستے پناہ گزینوں کی آمد کے لیے درکار زیادہ رقوم اور وسائل میسر ہوں۔
سربیا کے وزیر اعظم کے الفاظ میں، ’ایک سنجیدہ اور ذمہ دار ملک کی حیثیت سے، ہم یورپی یونین سے تاکید کی روشنی میں اپنے فرائض پورے کریں گے؛ جس میں لوگوں کے حقوق کا تحفظ، اُن کے انسانی حقوق کی حرمت کو یقینی بنانے، اور ساتھ ہی، اُس عزم کو پورا کرنا جو یورپی یونین کی پالسی کا مجموعی طور پر خاصہ ہے‘۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فور مائگریشن (آئی او ایم) کے ایک اعلیٰ اہل کار کا کہنا ہے کہ لوگوں کی تیز تر منتقلی کو دیکھتے ہوئے، یورپ اور دیگر مقامات پر سرکاری پالیسیاں ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔
ادارے کی سربراہ، لیسی سونگ نے کہا ہے کہ یورپ کو درپیش پناہ گزیں اور مہاجرین کا بحران جنگ عظیم دوم کے بعد سے لے کر اب تک کا بدترین معاملہ ہے، جب کہ ترک وطن دنیا کی سطح پر اولین درجے کا معاملہ بن چکا ہے۔ سونگ کے بقول، ’دنیا آخرِ کار ماننے لگی ہے کہ انسانی منتقلی ہمارے عہد کی ایک حقیقت ہے‘۔
آئی او ایم نے پیش گوئی کی ہے کہ 2016ء یورپ کی جانب ہجرت کا اہم سال ہوگا۔ اِس ضمن میں، ادارے نے اس جانب توجہ دلائی کہ آج سات میں سے ایک شخص پناہ گزیں ہیں۔ اِن میں سے، 23 کروڑ اور 20 لاکھ بین الاقوامی مہاجرین ہیں، جب کہ 34 کروڑ داخلی طور پر متاثرین ہیں۔
گذشتہ برس سمندر کے ذریعے یورپ پہنچنے والے پناہ گزیں اور مہاجرین کی تعداد 10 لاکھ سے زائد تھی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے بتایا ہے کہ بحیرہٴ روم کے خطرناک راستے سے آنے کی کوشش کرنےوالے 3770 سے زائد تارکین وطن ڈوبنے کے واقعات میں ہلاک ہوئے۔