یورپی یونین اور انقرہ کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ترک شہری جلد ہی ویزا کے بغیر یورپی یونین کا سفر کر سکیں گے جبکہ ترکی نے انسانی سمگلروں کے خلاف کارروائی اور پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔
تاہم بہت سے یورپی قانون سازوں نے ویزہ کے معاملے پر اپنا ویٹو استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے جس سے یہ معاہدہ خطرے کا شکار ہو جائے گا۔
یورپی یونین کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مارچ میں 26 ہزار سے زائد پناہ گزین یونان کے جزیرے پر پہنچے جبکہ فروری میں یہ تعداد دگنی سے بھی زیادہ تھی۔
یورپی یونین کے حکام کم تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ ترکی کے ساتھ معاہدہ مؤثر ہونے کی علامت ہے۔
یورپی کمیشن کے نائب صدر نے گزشتہ ہفتے کہا کہ ’’اگر ہم کچھ نہ کریں تو ہم یونان کو پناہ گزینوں کے لیے ایک بہت بڑا کیمپ بننے کے لیے چھوڑ دیں گے جہاں لاکھوں پناہ گزین پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ترکی نے کہا کہ وہ جون کی ڈیڈ لائن سے قبل یورپ کی طرف سے لاگو کی گئی تمام شرائط پوری کرنے کی طرف گامزن ہے۔ ترکی کا اصرار ہے کہ ویزہ کے بغیر سفر اس معاہدے کا ناقابل سمجھوتا حصہ ہے۔
مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ جرمنی میں ترکی سے کرد پناہ گزینوں کی بڑی تعداد میں آمد سے پناہ گزین مخالف اقدامات کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ ترک حکومت اور کرد تنظیم پی کے کے سے تعلق رکھنے والے باغیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے ان خدشات کو ہوا ملی ہے۔
تاہم لندن کی ریجنٹس یونیورسٹی میں ٹرانس نیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر ابراہیم سرکیچی نے کہا کہ یہ خدشات درست نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یورپ میں پناہ کے لیے آنے والے ترکی کے کسی بھی کرد شہری کی درخواست مسترد کر دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسی وقت فوراً مسترد کر دی جاتی ہے اور یہ سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے۔
اگرچہ دائیں بازو کے کچھ سیاستدان پناہ گزینوں سے متعلق خدشات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں مگر یورپی یونین کے کچھ قانون ساز ترکی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کے باعث بھی اس معاہدے کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انقرہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ہزاروں غیر انداج شدہ شامی پناہ گزینوں کو زبردستی شام واپس بھیج رہا ہے۔ ترکی پر یہ الزام بھی ہے کہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کی کوشش کرنے والے شامیوں کو ترک سکیورٹی فورسز گولی بھی مار رہی ہیں۔
ایمنسٹی کے جان ڈلہوئیزن نے کہا کہ ’’جس طرح ترکی کا پناہ گزینوں کو ان علاقوں میں واپس بھیجنا غیر قانونی ہے جن سے وہ بھاگ رہے ہیں اسی طرح یورپی یونین سے پناہ گزینوں کو اس ملک واپس بھیجنا جہاں سے وہ آ رہے ہیں بھی غیر قانونی ہے۔‘‘
جہاں یورپ پناہ گزینوں کا ایک راستہ بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہیں ایک اور روٹ تیزی سے پھل پھول رہا ہے۔ ہزاروں پناہ گزینوں نے حالیہ ہفتوں میں لیبیا سے اٹلی کا سفر کیا جبکہ موسم گرما میں سمندر پرسکون ہونے پر بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد متوقع ہے۔
ترکی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہاں صرف پناہ گزینوں کے حقوق ہی زد میں نہیں بلکہ ترکی میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔