دمدار ستارے پر اترنے والے روبوٹ کی بیٹریاں ماند پڑ گئیں

تاہم، ’یورپی اسپیس ایجنسی‘ نےبتایا ہے کہ ہفتے کے روز تک تحقیقاتی روبوٹ، ’فلے‘ کی بیٹریاں بجھ چکی تھیں، جس سے پہلے خلائی جہاز نے اپنے گرد و نواح سے متعلق وسیع ڈیٹا زمین کو روانہ کیا

کرہٴزمین سے کروڑوں میل دور، تاریخ میں اپنا نام لکھواتے ہوئے، بدھ کو ایک یورپی خلائی جہاز تیز رفتار برفانی، دھول اڑاتی سطح والے دمدار ستارے پر کامیابی سے اتر گیا۔۔ یہ ایک ایسی ابتدا ہے، جو ساتھ ہی، نظام شمسی کے بارے میں اہم سوالات کو جنم دیتی ہے۔


تاہم، ’یورپی اسپیس ایجنسی‘ نے بتایا ہے کہ ہفتے کے روز تک تحقیقاتی روبوٹ، ’فلے‘ کی بیٹریاں بجھ چکی تھیں، جس سے پہلے خلائی جہاز نے اپنے گرد و نواح کے بارے میں وسیع ڈیٹا زمین روانہ کیا۔

ایجنسی نے بتایا کہ جمعے کے دِن فلے کو چار سینٹی میٹر اوپر کیا گیا اور 35 ڈگری پر گردش کرنے لگا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اِسے سایے سے ہٹا کر روشنی کی طرف لایا جاسکے، تاکہ اِس کی پینلز اس قابل ہوں کہ بیٹری ریچارج کرسکیں۔ فوری طور پر، یہ واضح نہیں ہو سکا آیا یہ مشکل کام انجام دینے سے پینل سائے سے کامیابی سے باہر نکل پائے یا نہیں۔

اور اگر اس طرح کی گردش یقینی بنائی گئی تو بھی نئے سگنلز بھیجنے کے کام میں فلے کو کئی ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں۔

سنگلز پر نظر رکھنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر معائنہ کیا جاتا رہے گا۔ آخری سنگل ہفتے کی صبح کو پہنچے۔

فیلے روبوٹ کو روزیٹا نامی خلائی جہاز سے ’67 پی – چوریوموف جیراسیمینکو‘ نامی ستارے کی طرف چھوڑا گیا تھا۔ عہدیداروں کے مطابق دمدار ستارے پر پہلی مرتبہ اترنے کے بعد روبوٹ اچھلا تھا۔

زمین سے چھ ارب کلو میٹر کے فاصلے پر خلائی روبوٹ کے اترنے کے بعد اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا۔

ستارے پر اترنے سے قبل روبوٹ نے اپنے بیس اسٹیشن پر تصاویر ارسال کی تھیں۔ ’ای ایس اے‘ کے عہدیدار نے کہا تھا کہ 10 سال کے طویل سفر کے بعد روبوٹ کا ستارے پر اترنا ایک بڑا قدم ہے۔

اس کا مقصد نظام شمسی کی تشکیل سے متعلق اُن رازوں کا پتہ چلانا تھا جن سے اب تک پردہ نہیں اٹھ سکا ہے۔

جس دمدار ستارے پر فیلے اترا وہ لگ بھگ چار کلومیٹر چوڑا ہے اور اس پر جمے رہنے کے لیے روبوٹ کے ساتھ خصوصی ’ہارپونز‘ بنائے گئے تھے تاکہ وہ سطح پر گڑھ جائیں۔