روس کے یوکرین پر حملے کے بعد لاکھوں یوکرینی شہری مشرقی یورپ کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق امکان ہے کہ 10 سے 50 لاکھ تک مہاجرین اگلے چند ہفتوں میں یورپی یونین میں شامل ملکوں میں داخل ہو سکتے ہیں۔
پولینڈ نے سب سے پہلے یوکرینی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھولے ہیں جس نے ماضی میں سیاسی پناہ مانگنے والوں کے خلاف سخت مؤقف اپنایا تھا۔
روس کے حملے کے بعد سفر کے تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے بہت سے یوکرینی باشندے سرحدیں پار کر رہے ہیں۔بہت سے دوسرے پناہ گزین کاروں کے ذریعے بارڈر پار کرنے کے لیے گھنٹوں انتظار کر رہے ہیں یا متعدد نے پیدل طویل مسافت طے کی ہے تاکہ وہ محفوظ مقام تک پہنچ سکیں۔
یوکرین میں 18 سے 60 برس کے مردوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہیں اپنے ملک کے دفاع کے لیے ملک میں ہی رہنا ہوگا۔
یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وون ڈر لیان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے تمام فرنٹ لائن ممبر ممالک کے ساتھ مل کر یوکرین سے آنے والے پناہ گزینوں کو فوری طور پر خوش آمدید کہنے کے انتظامات کر لیے ہیں۔
انہوں نے ان پناہ گزینوں کی امدد کے لیے اپنے انسانی امداد کے دفتر ای سی ایچ او کے ذریعے منصوبہ بندی کی ہے۔
SEE ALSO: رپورٹر ڈائری: لوگ ہم سے یہی سوال پوچھتے ہیں کہ جنگ کب ختم ہوگی؟اگرچہ یورپی یونین امید کرتا ہے کہ کم سے کم یوکرینی شہری پناہ کے لیے درخواست دیں گے، ارسلا نے کہا کہ وہ انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ50 لاکھ کے قریب یوکرینی شہریوں کو پناہ کی ضرورت ہو سکتی ہے جن میں سے 30 لاکھ پناہ گزین پولینڈ جا سکتے ہیں۔
پولینڈ نے سرحد پر ریسپشن سینٹرز کھول دیے
موجودہ پناہ گزینوں کا بحران 2015 کے بحران سے بہت بڑا ہے جب 13 لاکھ کے قریب شامی، افغان اور دوسرے جنگ زدہ ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں نے یورپ کا رخ کیا تھا۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد تھی۔ ان میں سے اکثر کو جرمنی نے پناہ دی تھی۔
دوسرے یورپی ممالک جن میں پولینڈ اور ہنگری شامل ہیں نے اس وقت ان پناہ گزینوں کی جانب سردمہری کا رویہ اپنایا تھا۔ ہنگری نے پناہ گزینوں کی آمد روکنے کے لیے سرحد پر باڑ لگا دی تھی جب کہ پولینڈ نے بھی مشرقِ وسطی سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے، جو بیلاروس کے ذریعے ملک میں داخل ہو نا چاہتے تھے،اپنی سرحد پر دیوار بنانا شروع کر دی تھی۔
آج حالات مختلف ہیں۔ پولینڈ نے یوکرین کے ساتھ پانچ سو کلومیٹر طویل سرحد پر جگہ جگہ ریسپشن سینٹرزکھول دیے ہیں۔ پولینڈ کے وزیرِ داخلہ نے کہا ہے کہ وارسا ملک میں داخل ہونے والے تمام یوکرینی شہریوں کو خوش آمدید کہے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
فرانس میں دائیں بازو کی صدارتی امیدوار میرین لی پین نے بھی یوکرینی پناہ گزینوں کی آمد کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔ اگرچہ ان کی پارٹی نے افغانستان سے آنے والے پناہ گزینوں کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے۔
پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں نے اگرچہ حالیہ دنوں میں کیے جانے والے اقدامات کی حمایت کی ہے لیکن سیاسی پناہ لینے والوں کے مابین تفریق پر اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
نارویجیئن ریفیوجی کونسل سے تعلق رکھنے والے اولے سولوانگ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس قسم کی تفریق کا خوف ہے جسے وہ اب دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ یوکرین کے ہمسایہ ممالک اپنی سرحدیں کھلی رکھیں گے۔ لیکن اس بارے میں مستقبل میں ہی معلوم ہو سکے گا۔
اس خدشے کابھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر یوکرین کا تنازع طول پکڑتا ہے تو یورپی ملک شاید اپنے دروازے بہت عرصہ کھلے نہ رکھیں۔