یورپی یونین کے رہنماؤں نے جمعرات کو برسلز میں ایک سربراہی اجلاس میں اپنی مشترکہ طاقت کے استعمال سے ایسے طریقے تلاش کرنے کی کوشش کی جن سے ضرورت مند فلسطینیوں تک مزید امداد پہنچنے کو یقینی بنایا جا سکے اور غزہ میں حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے کچھ شہریوں سمیت وہاں سے یورپی یونین کے شہریوں کو خطرے سے فرار میں مدد مل سکے ۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کی جانب اپنے رویوں میں یورپی یونین کے ملک منقسم رہے ہیں لیکن سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کی نوعیت نے ان کے ان اختلافات کو اجاگر کر دیاہے ۔
یورپی یونین میں، آسٹریا ، جرمنی اور ہنگری اسرائیل کے سب سے بڑے حامیوں میں شامل ہیں ۔ آسٹریا اور جرمنی کےلیڈر حملے کے بعد اسرائیل کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لیے وہاں گئے تھے ۔
اسپین اور آئرلینڈ کی توجہ اکثر فلسطینیوں کی حالت زار پر مرکوز رہتی ہے ۔ جب کہ حماس یورپی یونین کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔
یورپی یونین کے ملکوں کے لیے مشکل یہ رہی ہے کہ حماس کے حملوں کی مذمت اور اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت میں کس طرح توازن قائم کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ بین الاقوامی قانون دونوں جانب کے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے ۔
یورپی یونین کے سفیر حالیہ دنوں میں اس بارے میں بحث کرتے رہے ہیں کہ آیا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لڑائی میں کسی وقفہ یا وقفوں کے لیے یا غزہ میں امداد کےداخلےکے کسی راستے کی اجازت کی اپیل کی جائے ۔
اسرائیل کے کٹر حامی کانفرنس کے بیان میں ایسی کسی بھی زبان کے مخالف ہیں جسے اسرائیل کےاپنے دفاع کے حق میں رکاوٹ سمجھا جائے ۔
فلسطینی عہدے داروں کے مطابق اسی دوران غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سات ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے ۔ یہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان کئی عشروں کے تنازعے میں ہلاکتوں کی غیر معمولی تعداد ہے ۔
یورپی لیڈروں نےاپنے سربراہی اجلاس کے بیان میں زور دیا کہ غزہ میں ضرورت مندوں تک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانےوالی امداد کو مسلسل ، تیز ، محفوظ اور بلا روک ٹوک انداز سے پہنچانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں جن میں انسانی ہمدردی کی راہداریاں اور بنیادی انسانی ضروریات کے لیےدی جانے والی امداد کی ترسیل کے کے لیے جنگ میں وقفے شامل ہیں ۔
آئر لینڈ کے وزیر اعظم لیو ورادکر نے کہا ، مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ ہم سر براہی اجلاس کے بیان میں کونسے الفاظ استعمال کریں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہلاکتیں اور تشدد ختم ہو تاکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد غزہ میں پہنچائی جا سکے جہاں فلسطینی مصائب کا شکار ہیں اور اس کےساتھ ساتھ ہمیں وہاں سے یورپی یونین کے شہریوں کو باہر نکالنے کی اجازت دی جائے۔
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ آئر لینڈ کے لگ بھگ 300 فلسطینی شہری و ہاں پھنسے ہوئے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر وہ غزہ سے نکلنا چاہتے ہیں تو تو وہ نکل سکیں اور یہ کہ اس وقت ایسا ممکن نہیں ہے ۔
جرمن چانسلر اولاف شولز سے جب پوچھا گیا کہ اسرائیل حماس کو تباہ کرنے میں کہاں تک جا سکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایک جمہوری ملک ہے جو انسانی ہمدردی کے اصولوں پر چلتا ہے ، اس لیے ہمیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ اسرائیلی فوج جو کچھ بھی کرے گی اس میں بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا احترام کرے گی ۔
27 ملکوں کے بلاک پر مشتمل یورپی یونین ایک محدود سیاسی اہمیت رکھنے کے باوجود فلسطینیوں کو امداد کی فراہمی میں دنیا بھر میں سب سے آگے ہے۔ اس نے اس سال لگ بھگ 78 ملین یوروز اور سال 2000 سے اب تک 93 ملین یوروز سے زیادہ کی امداد بھیجی ہے ۔
یورپی یونین کا اسرائیل پر بہت کم اثر و رسوخ ہے ، جس کا امریکہ کٹر اتحادی ہے لیکن وہ اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے ۔
یورپی یونین کی ایکزیکٹیو برانچ، "یورپی کمیشن" اب تک امداد سے بھرے دو طیارے غزہ بھیج چکی ہے ۔ اور اس نے مطالبہ کیا ہے کہ انسانی ہمدردی کی مزید امداد کو غربت اور تنازعے کے شکار غزہ میں جانے کی اجازت دی جائے۔
سیکیورٹی کے شدید خدشات کے باعث سربراہی اجلاس کے جاری بیان میں کہا گیا کہ رہنماصرف یہ ہی نوٹ کرتے ہیں کہ انہوں نے موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا ہے اور مختلف اقدامات کا فالو اپ کیا ہے جن میں یورپی یونین کے شہریوں کی مدد کی کوششیں شامل ہیں ۔
یورپی یونین مستقبل میں ایسے امن مذاکرات میں مدد چاہتی ہے جس میں حماس شامل نہ ہو ۔ رہنماؤں نے کسی سیاسی عمل کی بحالی میں کردار ادا کرنے کا عزم ظاہرکیا ۔
ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے اگلے چھ ماہ کے اندر ایک بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کی اپیل کی ہے۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے ۔)