جمعے کے روز جین ساکی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ روس کے پاس یہ اثر رسوخ اور صلاحیت موجود ہے کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کرائے
واشنگٹن —
امریکہ کا کہنا ہے کہ روس نواز شدت پسندوں سے مشرقی یوکرین کی زیر قبضہ سرکاری عمارات سے قبضہ چھڑانا، روس کی ’ذمہ داری‘ ہے۔
امریکی محکمہ ِخارجہ کی خاتون ترجمان، جین ساکی نے جمعے کے روز کہا کہ اگر روس صورتِ حال میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے اقدامات نہیں کرتا اور تناؤ میں کمی لانےکی غرض سے یوکرین کے بارے میں جمعرات کے طے پانے والے سمجھوتےپر عمل درآمد نہیں کرتا، تو اس کے ’نتائج‘ ٹھیک نہیں ہوں گے۔
اِس سے قبل، شدت پسند راہنما، ڈینس پُشلن نے کہا تھا کہ اُن کے حامی افراد کا اس سمجھوتے سے کوئی تعلق نہیں، اور وہ تب تک قبضہ جاری رکھیں گے جب تک یوکرین کی حکومت مستعفی نہیں ہو جاتی۔
ساکی نے کہا ہے کہ امریکہ علیحدگی پسندوں کے اس دعوے کو مسترد کرتا ہے کہ یوکرین کی نئی حکومت تختہ الٹ کر اقتدار میں آئی ہے۔
یہ سمجھوتا یوکرین، روس، امریکہ اور یورپی یونین کے مذاکرات کے نتیجے میں طے ہوا تھا۔ اس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام سرکاری عمارات کو خالی کرنا ہوگا اور شدت پسندوں کو غیر مسلح کرنا ہوگا۔
تاہم، بحران کے خاتمے کے لیے سمجھوتے میں چند ٹھوس اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، اور متعدد مغربی راہنماؤں کو اس بات کا خدشہ لاحق ہے کہ روس سودے بازی کی کوئی کوشش کر سکتا ہے۔
ساکی نے جمعے کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ روس کے پاس یہ اثر رسوخ اور صلاحیت موجود ہے کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کرائے۔
اُنھوں نے اِس بات کی طرف دھیان مبذول کراتے ہوئے کہا کہ، بقول اُن کے، علیحدگی پسندوں اور روس کے درمیان ایک ’واضح اور مضبوط رابطہ‘ ہے۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ امریکہ پر یہ بات ’روز روشن کی طرح عیاں ہے‘ کہ عمل درآمد کے سلسلے میں روس کا ماضی کا ریکارڈ درست نہیں رہا، اور آئندہ دِنوں کے دوران اس معاملے کا تجربہ ہو جائے گا، آیا روس اُسی پرانے ڈگر پر چل پڑے گا۔
امریکی صدر براک اوباما کہہ چکے ہیں کہ مناسب اقدامات نہ کرنے کی صورت میں، امریکہ روس کے خلاف تعزیرات عائد کرنے کے لیے تیار ہے۔
امریکی محکمہ ِخارجہ کی خاتون ترجمان، جین ساکی نے جمعے کے روز کہا کہ اگر روس صورتِ حال میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے اقدامات نہیں کرتا اور تناؤ میں کمی لانےکی غرض سے یوکرین کے بارے میں جمعرات کے طے پانے والے سمجھوتےپر عمل درآمد نہیں کرتا، تو اس کے ’نتائج‘ ٹھیک نہیں ہوں گے۔
اِس سے قبل، شدت پسند راہنما، ڈینس پُشلن نے کہا تھا کہ اُن کے حامی افراد کا اس سمجھوتے سے کوئی تعلق نہیں، اور وہ تب تک قبضہ جاری رکھیں گے جب تک یوکرین کی حکومت مستعفی نہیں ہو جاتی۔
ساکی نے کہا ہے کہ امریکہ علیحدگی پسندوں کے اس دعوے کو مسترد کرتا ہے کہ یوکرین کی نئی حکومت تختہ الٹ کر اقتدار میں آئی ہے۔
یہ سمجھوتا یوکرین، روس، امریکہ اور یورپی یونین کے مذاکرات کے نتیجے میں طے ہوا تھا۔ اس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام سرکاری عمارات کو خالی کرنا ہوگا اور شدت پسندوں کو غیر مسلح کرنا ہوگا۔
تاہم، بحران کے خاتمے کے لیے سمجھوتے میں چند ٹھوس اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، اور متعدد مغربی راہنماؤں کو اس بات کا خدشہ لاحق ہے کہ روس سودے بازی کی کوئی کوشش کر سکتا ہے۔
ساکی نے جمعے کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ روس کے پاس یہ اثر رسوخ اور صلاحیت موجود ہے کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کرائے۔
اُنھوں نے اِس بات کی طرف دھیان مبذول کراتے ہوئے کہا کہ، بقول اُن کے، علیحدگی پسندوں اور روس کے درمیان ایک ’واضح اور مضبوط رابطہ‘ ہے۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ امریکہ پر یہ بات ’روز روشن کی طرح عیاں ہے‘ کہ عمل درآمد کے سلسلے میں روس کا ماضی کا ریکارڈ درست نہیں رہا، اور آئندہ دِنوں کے دوران اس معاملے کا تجربہ ہو جائے گا، آیا روس اُسی پرانے ڈگر پر چل پڑے گا۔
امریکی صدر براک اوباما کہہ چکے ہیں کہ مناسب اقدامات نہ کرنے کی صورت میں، امریکہ روس کے خلاف تعزیرات عائد کرنے کے لیے تیار ہے۔