یونان کے حکام نے منگل کی صبح کو اڈومینی کے علاقے میں واقع پناہ گزینوں کے ایک غیر رسمی "کیمپ" کو خالی کروانے کی کارروائی شروع کی ہے۔
اس کارروائی کے لیے کم از کم چار سو پولیس اہلکاروں کو کیمپ میں بھیجا گیا ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق 8,400 افراد مقیم ہیں۔
یونان اور مقدونیہ کی سرحد کے قریب واقع یہ غیر رسمی "کیمپ" اس وقت قائم کیا گیا تھا جب مقدونیہ نے مارچ میں اپنی سرحد بند کر دی تھی۔ ایک وقت یہاں مقیم افراد کی تعداد 12,000 تک پہنچ گئی تھی۔
سرحد بند ہونے کے بعد یونان میں پہلے سے بے گھر پناہ گزینوں کا مسئلہ زیادہ گھمبیر ہو گیا تھا اور اس وجہ سے حکام نے اڈومینی کے "کیمپ" میں مقیم پناہ گزینوں کو پہلے سے قائم کیمپوں میں منتقل ہونے پر زور دیا۔
ان پناہ گزینوں میں سے زیادہ تر کا تعلق شام، افغانستان اور عراق سے تھا اور انہوں نے اس امید پر حکام کی بات مانی کہ باضابطہ طور پر قائم کیمپوں میں انہیں رہنے کی بہتر سہولتیں میسر آ سکتی ہیں۔
تاہم ان میں سے کئی ایک ایسے بھی تھے جو اس کیمپ کو اس بنا پر چھوڑنے پر تیار نہیں تھے کیونکہ انہیں یہ خدشہ تھا کہ نئے کیمپ بجائے بہتر ہونے کے زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اس اقدام کی وجہ سے ان کی یورپ میں آبادکاری کے معاملے میں دیر ہو سکتی ہے۔
یونان میں پناہ گزینوں کی آمد کو روکنے کے لیے ترکی اور یورپی یونین نے مارچ میں ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا جس کے تحت ترکی سے یونان کے جزیروں پر پہچنے والے پناہ گزینوں کی یونان میں سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے پر انہیں واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔
ان میں سے چند ایک ہی پناہ گزین بجائے جرمنی اور سویڈن جیسے ملکوں میں آباد ہونے کے یونان میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ ترکی میں تیس لاکھ پناہ گزینوں کی موجودگی کی وجہ سے اس وقت ترکی دنیا میں پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
اس معاملے کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یہ سنگین ترین انسانی بحران ہے۔