شام میں ایک باغی کمانڈر کے قتل کے بعد دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقوں پر قابض ہزاروں باغی جنگجووں کا علاقے سے انخلا موخر کردیا گیا ہے۔
باغیوں اور شامی حکومت کے درمیان اقوامِ متحدہ کی کوششوں سےطے پانے والے سمجھوتے کے تحت دمشق کے جنوبی علاقے میں موجود چار ہزار باغیوں اور ان کے اہلِ خانہ کے علاقے سے انخلا کا عمل ہفتے کو ہونا تھا۔
لیکن شام میں امن و امان کی صورتِ حال کی نگرانی کرنے والی برطانوی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق باغی کمانڈر ظہران علوش کے قتل کے بعد انخلا کے منصوبے پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔
شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کے تحت علاقے پر قابض باغیوں کے کمانڈر ظہران علوش جنگجووں کا دمشق سے محفوظ انخلا یقینی بنانے کےذمہ دار تھےجو معاہدے پر عمل درآمد کے آغاز سے چند گھنٹے قبل اپنی تنظیم کے مرکز پر ہونے والے ایک فضائی حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
ظہران علوش کی ہلاکت کی تفصیلات واضح نہیں ہوسکی ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق وہ صدر بشار الاسد کی فوج کے فضائی حملے میں ہلاک ہوئے جب کہ بعض اطلاعات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ علوش پر حملہ روسی جنگی طیارے نے کیا تھا۔
ظہران علوش کا شمار شامی جنگجووں کے نمایاں ترین رہنماؤں اور عسکری ماہرین میں ہوتا تھا جو باغیوں کی اسلام پسند تنظیم 'جیش الاسلام' کے کمانڈر اور اسلام پسند باغی تنظیموں کے اتحاد اسلامک فرنٹ کے فوجی سربراہ تھے۔
علوش کے ماتحت ہزاروں باغی گزشتہ کئی ماہ سے دمشق کے مشرق میں واقع علاقوں غوطہ اور دوما کے وسیع رقبے پر قابض ہیں اور حکومت کی پیش قدمی کے خلاف سخت مزاحمت کر رہے ہیں۔
باغی اپنے زیرِ قبضہ علاقوں پر شامی فوج کے فضائی حملوں کا جواب دمشق پر راکٹ باری سے دیتے آئے ہیں جس میں اب تک دارالحکومت کے درجنوں رہائشی ہلاک ہوچکے ہیں اور یہ معاملہ شامی حکومت کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔
حالیہ مہینوں کے دوران اقوامِ متحدہ اور غیر ملکی حکومتوں کے نمائندوں نے شام میں حکومت اور باغیوں کے درمیان کئی مقامات پر جنگ بندی اور جنگجووں اور فورسز کے انخلا کے معاہدے کرائے ہیں جن کا مقصد فریقین کے درمیان لڑائی کی شدت میں کمی لانا اور تنازع کے پرامن حل کے امکانات کو فروغ دینا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے تاحال علوش کی موت اور دمشق کے نواحی علاقوں سے باغیوں کے انخلا کے منصوبے پر عمل درآمد معطل ہونے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔