ٹرمپ سنجیدہ قیادت میں ناکام، امریکہ کو تقسیم کر رہے ہیں: سابق وزیرِ دفاع

جم میٹس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہمراہ (فائل فوٹو)

امریکہ کے سابق وزیرِ دفاع جِم میٹس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک کو سنجیدہ قیادت فراہم کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں اور امریکہ کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پینٹاگون کے سابق چیف جِم میٹس نے بدھ کو جہاں ایک طرف امریکی صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا وہیں انہوں نے نسل پرستی کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے حق میں بھی آواز اٹھائی۔

امریکی جریدے 'دی اٹلانٹک' میں بدھ کو شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں جم میٹس نے کہا ہے کہ "ڈونلڈ ٹرمپ میری زندگی میں آنے والے وہ واحد امریکی صدر ہیں جو اپنے شہریوں کو متحد کرنے کی کوشش نہیں کر رہے اور وہ عوام کو دکھانے کے لیے بھی ایسا نہیں کر رہے۔"

انہوں نے کہا کہ ہم سنجیدہ قیادت کے بغیر تین سال گزارنے کے نتائج اب دیکھ رہے ہیں۔

جم میٹس کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے کے واقعات کا مشاہدہ کرنے کے بعد وہ برہم اور حیرت زدہ ہیں۔ اُن کے بقول بعض شہروں میں مظاہرے پرتشدد رنگ اختیار کر گئے ہیں اور صدر ٹرمپ شہریوں کے خلاف فوجی کریک ڈاؤن کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

جم میٹس کا یہ مضمون ایسے موقع پر شائع ہوا ہے جب امریکہ میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی موت کے خلاف گزشتہ کئی روز سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔

SEE ALSO: امریکہ میں احتجاج: ٹرمپ کا متاثرہ شہروں میں فوج تعینات کرنے کا عندیہ

میٹس نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ مظاہرین کا یہ مطالبہ کہ "انصاف سب کے لیے برابر" ہونا چاہیے، یہ ہم سب کا مطالبہ ہے۔

انہوں نے پیر کو وائٹ ہاؤس کے قریب جمع ہونے والے مظاہرین کو ہٹانے کے لیے طاقت کے استعمال کے فیصلے پر بھی سخت تنقید کی اور کہا کہ یہ اختیارات کا ناجائز استعمال تھا۔

اُن کے بقول، "تقریباً 50 برس قبل فوج میں شمولیت اختیار کرتے وقت میں نے حلف لیا تھا کہ آئین کی حمایت اور اس کی حفاظت کروں گا۔ میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ سیکیورٹی اہلکار جو یہی حلف اٹھاتے ہیں، اُنہیں یہ حکم دیا جائے گا کہ وہ اپنے شہریوں کے آئینی حق کو پامال کریں۔"

جِم میٹس امریکی فوج کے سابق جنرل ہیں جنہوں نے 44 سال تک امریکی میرین کور میں خدمات انجام دیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد انہیں اپنی کابینہ میں وزیرِ دفاع نامزد کیا تھا۔

جم میٹس نے دسمبر 2018 میں وزیرِ دفاع کی ذمہ داریوں سے اس وقت استعفیٰ دے دیا تھا جب صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کے احکامات دیے تھے۔

بدھ کو جم میٹس کے ناقدانہ مضمون کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں دوبارہ اس موقف کو دہرایا ہے کہ انہوں نے جم میٹس کو خود ان کے عہدے سے فارغ کیا تھا۔

اپنے ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ سابق امریکی صدر براک اوباما اور اُن میں ایک ہی چیز مشترک ہو سکتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ دونوں صدور نے جم میٹس کو اُن کی ذمہ داریوں سے فارغ کیا۔

SEE ALSO: احتجاج، جلاؤ گھیراؤ، لوٹ مار: امریکہ میں کیا ہو رہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے؟

یاد رہے کہ سال 2013 میں اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما نے بھی جم میٹس کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ میٹس اس وقت امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ تھے۔

وزیرِ دفاع کی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد سے جم میٹس امریکی صدر پر تنقید سے گریزاں رہے ہیں۔ لیکن بدھ کو انہوں نے صدر ٹرمپ کے ساتھ ساتھ وزیرِ دفاع مارک ایسپر پر بھی اُن کا نام لیے بغیر تنقید کی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے شہروں کو جنگ کا میدان سمجھنے والی اس سوچ کو مسترد کر دینا چاہیے جس کے تحت ہماری فوج کو غلبہ حاصل کرنے کا کہا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ مارک ایسپر نے پیر کو امریکی ریاستوں کے گورنروں سے کہا تھا کہ وہ مظاہرے ختم کرنے کے لیے "میدانِ جنگ میں اپنی برتری" ثابت کریں۔

مارک ایسپر کو اپنے اس بیان پر خاصی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔

بدھ کو مارک ایسپر نے اپنے اس بیان سے متعلق صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں ماضی میں جا کر دوبارہ یہ بیان دینا پڑا تو وہ مختلف الفاظ استعمال کریں گے۔