لندن کانفرنس سے کیا توقعات وابستہ ہیں

افغانستان میں اتحادی فوجی

لندن کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز کے ماہر سیکیورٹی امور کرسٹو فر لینگٹن افغانستان میں عدم تحفظ کو سب سے بڑا مسئلہ اور افغان فوج کی تربیت کو سب سے اہم قرار دیتے ہیں


برطانیہ میں آج افغانستان پر غور ہو رہا ہے ۔لندن میں ہونے والی اس عالمی کانفرنس کا مقصد افغانستان میں امن و استحکام کا قیام ،تعمیرو ترقی اور اچھی گورنینس کے حوالے سے ایک ایسی مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینا ہے جس کا راستہ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا تک جاتا ہے۔

امریکی افواج نے طالبان کو شکست دے کرافغان عوام کو ایک مستحکم ملک ، مزید آزادیوں اور ترقی کی امید دلائی تھی اس بات کو اب آٹھ سال ہو چکے ہیں۔

احمد فرید مال ایک تارک وطن ہیں اور وہ لند ن میں اپنے ملک میں آنے والی تبدیلیوں پر نظررکھے ہوئے ہیں۔وہ اکثر شمال مشرقی افغان شہر کندوز میں رہنے والے اپنے عزیزوں سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ میرے رشتہ داروں نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ملک چھوڑنا چاہتے ہیں ،وہ محفوظ نہیں ہیں۔ہر روز شہر میں کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے جب لوگ مارے جاتے ہیں۔
مال نے نے 1998ء میں افغانستان چھوڑکر اپنے خاندان کے ساتھ لندن میں رہائش اختیار کی تھی ۔اور وہ کہتے ہیں کہ افغانستان سے مسلسل لڑائی اور تشدد کی خبروں کا آنا تشویشناک ہے۔

لندن کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز کے ماہر سیکیورٹی امور کرسٹو فر لینگٹن افغانستان میں عدم تحفظ کو سب سے بڑا مسئلہ اور افغان فوج کی تربیت کو سب سے اہم قرار دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری فوج وہ دفاعی حصار قائم کئے ہوئے ہے ، جس کے اندر افغان سیکیورٹی فورس کو منظم ہونے اور اپنی صلاحیت بڑھانے کا موقعہ مل رہا ہے۔

وہ افغانستان میں کچھ پیش رفت دیکھ رہے ہیں مگر کہتے ہیں کہ اسے دیرپا بنانے کے لئے وقت درکار ہے ۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ کے مطابق تعاون کا ہاتھ بڑھانے والے طالبان کو اپنا اندراج کرانا ہوگا۔

ان کا کہناہے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب سے اہم ہے کہ وہ طالبان جو افغانستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے افغان عوام کو نشانہ بنانے کے بجائے ان کی حفاظت کی حامی بھریں ، ہم ان کا تعاون حاصل کریں۔

افغانستان کا سب سے بڑا مسئلہ سیکیورٹی سہی مگر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان عوام بد عنوانی کو اپنے ملک کا اصل مسئلہ قرار دیتے ہیں۔اینٹونیو ماریا کوسٹا منشیات اور جرائم کی روک تھام کے اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ ہیں ۔ ان کا کہناہے کہ افغان عوام کے نزدیک بد عنوانی ، بد امنی اور غربت سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔

کوسٹا کہتے ہیں کہ افغانستان کی مجموعی قومی آمدنی کا ایک چوتھائی یعنی ڈھائی ارب ڈالر بد عنوان سرکاری اہلکاروں کی جیب میں چلا جاتا ہے ۔مگر ان کا کہنا ہے کہ امن و امان اور گڈ گورنینس پائیدار ترقی کے لئے ناگزیر ہے ۔اور انہی معاملات پر لندن میں عالمی لیڈر بات کر رہے ہیں ۔لیکن افغانستان سے طالبان کے خاتمے کے بعد مذاکرات اور بات چیت کی ایسی کئی نشستیں پہلے بھی ہو چکی ہیں۔ افغانستان کی تعمیر نو پر خرچ کی جا نے والی رقم کا تخمینہ اربو ں ڈالر ہے۔ اور وہاں تعینات اتحادی افواج کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ۔فوجی جتنے زیادہ ہیں ، جانی نقصان کا تخمینہ بھی اس کے مقابلے پر ہے ،اور وقت کے ساتھ جنگ کی عوامی حمایت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔

ماہرین کا اصرار ہے کہ لندن کانفرنس کا اختتام کسی قابل عمل حکمت عملی پر اتفاق رائے سے ہوجس میں ایگزٹ سٹریٹجی یا انخلا کی بات بھی شامل کی جائے۔

احمد فرید کہتے ہیں کہ چاہے اپنے شہر کے گلی کوچے دوبارہ دیکھنے کے لئے ہی سہی ، وہ اپنے گھر واپس جانا ضرور چاہیں گے ۔مگر انہیں یقین نہیں ہے کہ ایسا کبھی ہوگا بھی یا نہیں۔