چین ایشیا میں امریکہ کے F-35 طیاروں کے مقابلے پر اپنے J-20 لڑاکا طیارے تعینات کر رہا ہے

چین کا جے 20 اسٹیلتھ لڑاکا طیارہ۔ (فائل فوٹو)

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین ایشیا میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی فوجی موجودگی سے نمٹنے کے لیے اپنے اعلیٰ قسم کے جیٹ لڑاکا طیارے اپنے قریبی سمندری علاقوں میں تعینات کر رہا ہے۔

رالف جیننگز نےاپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ماہرین اور ایشیا کی میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک میں بنے ہوئے Chengdu J-20 اسٹیلتھ لڑاکا طیارے ملک کے جنوب میں جنوبی بحیرہ چین اور مشرقی بحیرہ چین میں اور تائیوان کے گرد مشنوں کے لیے تعینات ہیں۔

چین کی سرکاری گلوبل ٹائمز نیوز ویب سائیٹ نے تیرہ اپریل کو بتایا کہ J-20 طیاروں نے معمول کے مطابق تربیتی سیشن اور دونوں سمندروں میں گشت کا آغاز کردیا ہے۔ رپورٹ میں یہ طیارے بنانے والی کمپنی ایویئشن انڈسٹری کارپوریشن آف چائنا کے ڈسپلن، انسپیکشن اور سپرویژن ٹیم کے سربراہ سین یوکون کا بیان نقل کیا گیا ہے۔

واشنگٹن میں قائم سینٹر فور اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں ایشیا میریٹائم ٹرانس پیرینسی انیشئیٹو کے سربراہ گریگوری پولنگ کا کہنا ہے کہ شاید یہ ایسی چیز ہے جس سے وہ تائیوان اور مشرقی بحیرہ چین میں امریکہ کے مساوی قوت حاصل کر سکے۔

امریکی حکومت نے، جو اپنے جنگی جہاز وقفے وقفے سے ایشیا کے متنازعہ سمندروں سے گزارتی رہتی ہے، جنوری میں اپنے دو طیارہ بردار گروپ جنوبی بحیرہ چین میں بھیج دیےتھے۔

ریڈیو فری ایشیا کی رپورٹ کے مطابق ایشیا بحرالکاہل میں امریکی اتحادیوں آسٹریلیا، جاپان اور جنوبی کوریا نے F-35 طیارے خرید لیے ہیں اور سنگاپور اور ممکنہ طور پر تھائی لینڈ بھی یہ طیارے خرید لے گا۔

ایف 35 لڑاکا طیارہ (فائل فوٹو)

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے ان اقدامات کے سبب چین نے اپنے J-20 طیاروں کی پروازیں شروع کیں۔ چینی حکام سابقہ سرد جنگ کے دور کے اپنے دشمن واشنگٹن کو ایک ایسی حریف سپر پاور سمجھتے ہیں جو قریبی سمندری علاقوں میں چین کی توسیع کو روکنا چاہتی ہے۔

چین تین اعشاریہ پانچ ملین اسکوائر کلو میٹر جنوبی بحیرہ چین کے کوئی نوے فیصد کو اپنا قرار دیتا ہے۔ جس پر برونائی، ملیشیا، فلپائن، ویتنام اور تائیوان کے دعووں پر اس کا تنازعہ ہے۔ ایشیائی حکومتیں اس سمندر کو تیل، قدرتی گیس، جہاز رانی اور ماہی گیری کے لحاظ سے قیمتی سمجھتی ہیں۔

جاپان، تائیوان اور فلپائن امریکہ کے اتحادی ہیں۔ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ جنوبی بحیرہ چین کو بدستور ایک بین الاقوامی آبی گزرگاہ رہنا چاہئیے۔

تائیپے کی نیشنل چینگ شی یونیورسٹی میں سفارتکاری کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہو آنگ کوئی کا کہنا ہے کہ چین کا موقف ہے کہ جنوبی بحیرہ چین اس کا ہے، جبکہ امریکی اقدامات کا مقصد اسکو بین الاقوامی حیثیت دلوانا ہے اور چین یہ نہیں چاہتا۔ چنانچہ، میرے خیال میں، دونوں فریق ان طیاروں کی نمائش یہ دکھانے کے لیے کر رہے ہیں کہ وہ کتنے طاقتور ہیں۔

یونیورسٹی آف فلپائن میں انسٹیٹیوٹ فار میری ٹائم افئیرز اینڈ لاء آف دی سی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ڈائریکٹر جے باتنگ باکال کہتے ہیں کہ J-20 طیارے ایسے دوسرے ایشیائی ممالک کی فوجی پروازوں میں خلل ڈال سکتے ہیں جن کے پاس اس معیار کے طیارے نہ ہوں۔

اور وہ کہتے ہیں کہ چین کے لیے یہ اس وجہ سے اہم ہے کہ اس طیارے کی صلاحیتوں اور رینج کے سبب وہ علاقے میں اپنی دور تک موجودگی کو برقرار رکھنے کے قابل ہو سکے گا۔

کہا جاتا ہے چین کےJ-2 طیارے صلاحیت کے لحاظ سے امریکہ کے F-22 اور F-35 طیاروں کے مقابلے کے ہیں۔اور گریگوری پولنگ کا کہنا ہے کہ امریکہ جتنی تیزی سے ممکن ہو F-35 طیارے ایشیا پہنچا رہا ہے۔

و یت نام کے ہوچی من سٹی کی سوشل سائینسز اور ہیومینیٹیز یونیورسٹی میں سائیگان سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈائریکٹر، نوین تھان ترنگ کہتے ہیں کہ ہنوئی نے جنوبی بحیرہ چین کے علاقے میں چین کی جانب سے ہر قسم کے ہتھیار جمع کرنے کے خلاف بار بار احتجاج کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ چین کی جانب سے جدید J-20 طیاروں کی تعیناتی کو ویت نامی حکومت جنوبی بحیرہ چین کی فضائی حدود پر اپنےا قتدار اعلیٰ کے چین کے دعوے پر مزید اصرار کے لیے اس کے اضافی عزم سے تعبیر کرے۔