پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار اپنے عہدے کی میعاد مکمل کر کے جمعرات کے روز سبکدوش ہو گئے اور اُن کی جگہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ملک کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔
جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے مفاد عامہ کے امور پر ’سؤموٹو‘ کا بے دریغ استعمال؛ صادق اور امین کے معاملے پر آئین کی تشریح کرتے ہوئے وزیر اعظم کو گھر بھجوانا؛ ڈیم کی تعمیر کے لیے چندے کی مہم چلانا اور بدعنوانی کے خلاف کڑے اقدام کا آغاز چند مثالیں ہیں جو آج پاکستان میں زبان زد عام ہیں۔
سیاسی جماعتوں سے وابستہ کئی راہنما و کارکناں کے علاوہ پاکستانی عوام کی ایک خاصی تعداد جسٹس ثاقب نثار کو ایک نجات دہندہ، محب وطن اور منصف مزاج شخص قرار دیتے ہیں۔
اسی طرح، سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کی کارکردگی کے بارے میں قانون کے ماہرین اور سابق جج حضرات کے خیالات اور آرا مختلف اور متضاد ہیں۔
نامور وکیل علی احمد کُرد کہتے ہیں کہ ’’پارلیمنٹ کو توہین عدالت کی شق کو اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہیے‘‘، اور یہ کہ ’’اس وقت پاکستان میں ججوں اور وکیلوں کے درمیان بڑی خلیج حائل ہے‘‘۔
’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے جسٹس ناصرہ جاوید نے کہا کہ جسٹس ثاقب نثار نے کچھ ایسے کام بھی کئے جن کی واقعی ضرورت تھی جن میں سرکاری اور نجی زمینوں کو قبضہ گروپ سے چھڑانا، نجی سکولوں کی فیس کم کرنا، ہسپتالوں کی صورت حال کو بہتر بنانا اور پانی کی قلت دور کرنے کیلئے نئے ڈیموں کی تعمیر کیلئے بھرپور مہم چلانا۔
ایک اور ماہر قانون اور سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے کردار کا جائزہ لینے کیلئے ایک معیار قائم کرنا ہوگا۔ یہ دیکھنا ہوگا آیا اُن کی کارکردگی کا جائزہ اس حوالے سے لیا جائے کہ اُنہوں نے عام لوگوں کے مسائل حل کرنے کیلئے کیا کام کیا یا پھر آئین کی رو سے چیف جسٹس کی ذمہ داریاں کس انداز سے نبھائیں؟
اُن کا کہنا تھا کہ آئین کی رو سے ریاست کے تین بنیادی ستونوں، یعنی ’’مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ‘‘ میں اختیارات کی تقسیم واضح طور پر موجود ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات بھی استعمال کئے۔ تو اس حوالے سے یہ بحث آنے والے دنوں میں جاری رہے گی۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگر عدلیہ محسوس کرتی ہے کہ انتظامیہ اپنا کام اس خوبی سے نہیں کر رہی جو اسے کرنا چاہئیے تو کیا اس کا حل یہی ہے کہ انتظامی حوالے سے یہ اختیار چیف جسٹس خود سنبھال لیں؟ اُن کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ حرف آخر ہوتا ہے، اور اُس کے خلاف کوئی اپیل بھی نہیں ہو سکتی۔ لہذا، یہ امر باعث تشویش ہے کہ معاملہ وفاقی اختیارات کا ہو یا صوبائی اختیارات کا، عدلیہ کی جانب سے آنے والا فیصلہ اُن سب پر حاوی ہو جاتا ہے۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ آنے والے وقت میں جسٹس ثاقب نثار کا دور متنازعہ بھی رہے گا اور بہت سے حلقے اس کی تعریف بھی کریں گے۔ تاہم، مستقبل کے حوالے سے اگر آئینی ادارے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں نہیں رہیں گے اور عدالتی عمل سے آگے بڑھ کر معاشرتی معاملات میں مداخلت کی یہ روش جاری رہے گی تو ملک کے نظام کیلئے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ملکی عدلیہ کی تاریخ میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس ثاقب نثار کا مقام کس انداز میں متعین کیا جاتا ہے؟
علی احمد کرد نے کہا ہے اگر ثاقب نثار صاحب اپنی ریٹائرمنٹ کے دن کو یاد رکھتے تو اچھا ہوتا۔ بقول اُن کے، ’’سول کیسز میں ان کی مہارت اپنی جگہ، اس وقت ملک کی تمام عدالتوں میں 19 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ میں بھی ہزاروں مقدمات موجود ہیں۔ اگر وہ اپنا کام کرتے تو بہت سے مقدمات کے فیصلے ہوچکے ہوتے۔ آج لوگ جو باتیں کر رہے ہیں، انھیں باتیں کرنے کا موقع نہ ملتا‘‘۔
بقول اُن کے، ’’میں سمجھتا ہوں کہ ثاقب نثار بہت متنازعہ اور ناکام چیف جسٹس کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں‘‘۔
افتخار چودھری اور ثاقب نثار سے متعلق سوال پر، علی احمد کرد نے کہا کہ ’’انسانی معاشرے اور تہذیبیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب اچھی نظیر اور اچھی روایات کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ جس نظیر یا روایت کو معاشرے نے رد کر دیا ہو، جو اسے لے کر آگے چلے گا وہ نقصان اٹھائے گا‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’افتخار چودھری صاحب نے جتنے بھی ازخود نوٹس لیے، ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ لوگوں نے ان پر اس وقت، ان کی موجودگی میں اور ان کے بعد بھی اعتراضات کیے‘‘۔ اسی طرح، علی احمد کرد کا کہنا تھا کہ ’’ثاقب نثار کا معاملہ زیادہ مختلف نہیں لگتا‘‘۔
علی احمد کرد کے بقول، ’’آج جج وکلا کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ ان کی توہین کرتے ہیں۔ میں ذمے داری سے آپ کو بتا رہا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں ججوں اور وکیلوں کے درمیان بڑی خلیج ہے۔ اس خلیج کو دور کرنا سب سے بڑا کام ہے۔ نہیں تو یہ نظام ٹھیک نہیں ہو سکے گا‘‘۔