گرمیوں میں موسم کی شدت میں اضافے کا امکان، فصلیں متاثر ہونے کا اندیشہ

فائل فوٹو

پاکستان کی وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان میں رواں سال موسم گرم میں درجۂ حرارت میں ممکنہ اضافے کے خطر ے کا انتباہ جاری کیا ہے اور تمام متعلقہ اداروں اور اسٹیک ہولڈرز کو آئندہ مہینوں میں بڑہتی ہوئی حدت سے نمٹنے کے لیے قبل از وقت اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔

یہ انتباہ ایک ایسے موقعے جاری کیا گیا ہے جب پاکستان کے محکمۂ موسمیات کی طرف سے رواں سال مارچ سے ہی درجۂ حرارت بڑھنے کی پیش گوئی کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ مئی تک پاکستان کے مختلف علاقوں کا اوسط درجۂ حرارت معمول سے زیادہ رہنے کا امکان ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہیٹ ویو کا بھی اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ۔ پاکستان کو موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے ناصرف غیر معمولی بارشوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ گزشتہ سال ملکی تاریخ کے غیر معمولی سیلاب سے بھ ی دو چار ہونا پڑا تھا۔

گزشتہ برس بھی پاکستان کو مارچ اور اپریل میں گرمی کی لہر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستان میں عمومی طور پر اپریل میں اوسط درجۂ حرارت 24.32 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا جاتا ریا ہے۔ البتہ گزشتہ برس اپریل میں اوسط درجۂ حرارت 28.3 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا جو معمول کے درجہ حرارت سے لگ بھگ 4.5 سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر اثرات کے حوالے سے ماہرِ موسمیات ڈاکٹر محمد حنیف کہتے ہیں کہ رواں سال مارچ کے بعد اگرچہ پاکستان میں گرمی کی لہر اور درجۂ حرارت میں معمول سے زیادہ اضافے کی پیش گوئی کی جا چکی ہے۔ لیکن ان کے خیال میں گزشتہ سال کی نسبت رواں سال گرمی کہ لہر کا دورانیہ شاید کم ہو۔

گزشتہ برس مختلف علاقوں میں گرمی کی لہر کا دورانیہ طویل رہا تھا اس کی وجہ سے جہاں ہیٹ ویوز میں شدت آئی تھی وہیں کئی علاقوں میں مون سون کی بارشیں معمول سے زیادہ ریکارڈ کی گئی تھیں۔ معمول سے زیادہ بارش کی وجہ پاکستان کو غیر معمولی سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس سے ملک کے جنوبی علاقے سب سے زیاد ہ متاثر ہوئے۔

'گرمی کی لہر اب ایک معمول بن سکتی ہے'

ماہرِ موسمیات محمد حنیف کہتے ہیں کہ رواں سال پاکستان میں موسمِ بہار کے آغا پر درجۂ حرات میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے مارچ میں غیر معمولی بارشیں ہوئیں۔ ان کے بقول مارچ میں درجۂ حرارت معمول سے کم رہا لیکن اس وجہ سے شاید ہیٹ ویو کا دورانیہ کم ہو۔ ایسی صورتِ حال کا سامنا مستقبل میں بھی ہو سکتا ہے۔

خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کا موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہہ چکا ہے کہ آئند برسوں میں ا پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کو بھی گرمی کی لہر کی شدت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

محمد حنیف کہتے ہیں کہ رواں سال پاکستان میں گرمی کی شدید لہر مئی کے وسط سے شروع ہو کر جون کے آخر تک جاری رہ سکتی ہے۔

SEE ALSO: سیلاب کے چند ماہ بعد پاکستان میں آبپاشی کے لیے 27 فی صد پانی کی کمی

انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس پاکستان میں 50 سے زیادہ دن ایسے تھے جب درجۂ حرارت 40سینٹی گریڈ سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے لیکن اس سال یہ لگ بھگ 30 دن ایسے ہوں گے جو گرم ترین ہوں گے۔

محمد حنیف کہتے ہیں کہ موسم گرما کے اوسط درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے کراچی میں ماضی کی نسبت گر م ترین دنوں میں 25 فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ رواں برس حدت بڑھنے سے کراچی کو گرمی کی دو سے تین لہروں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

دوسری جانب موسمیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ گرمی کی لہر کی وجہ سے شہری علاقوں میں صورتِ حال گھمبیر ہو جاتی ہے ۔

شہروں میں ہیٹ ویو آنے کا خدشہ

کراچی کو 2015 میں غیر معمولی ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں ایک ہزار سے زائد اموات ہوئی تھیں۔ جون 2015 میں درجۂ حرارت میں اضافے اور ہوا میں زیادہ نمی کی وجہ سے اموات ہوئی تھیں۔

ماہرینِ موسمیات کہتے ہیں کہ پاکستان میں آٹھ سے 10 شہر ایسے ہیں جہاں موسم گرما میں درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے جن میں جیکب آباد ، سبی، لاڑکانہ، تربت، پنجگور ، بہاولنگر، میانوالی، سرگودھا اور بھکر شامل ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس صورتِ حال میں ان افراد کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جو کھلے آسمان تلے کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

موسمیاتی تبدیلی: دنیا پاکستان کی کیا مدد کر سکتی ہے؟

اسی صورتِ حال کے پیشِ نظر وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نے ان افراد کے لیے انتباہ جاری کیا ہے جن کو کھلے آسمان تلے شدید گرمی میں کام کرنا پڑاتا ہے۔ ایسے شہریوں سے کہا گیا ہے کہ انتہائی شدید موسم میں احتیاط کی جائے۔

کیا فصلوں کی کاشت کےوقت میں تبدیلی ممکن ہے؟

موسمیاتی تغیرات اور بڑھتی ہوئی حدت کی وجہ سے ماہرین غذائی اور آبائی عدم تحفظ میں بھی اضافے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اب ایک مستقل صورتِ حال اختیار کر چکے ہیں اور ان کے منفی اثرات زراعت پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس صورِتِ حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی زراعت کو بھی موسمیاتی تبدیلی کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے۔ حدت میں اضافے اور موسم کی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں اب ربیع کی فصل معمول سے پہلے تیار ہو جاتی ہے جب کہ درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے خریف کی کھڑی فصلوں کے لیے پانی کی ضرورت بھی بڑھ جاتی ہے۔

’زیادہ بارشوں سے فصلوں کو نقصان پہنچا‘

زرعی ماہر ڈاکٹر سید ساجدین حسین کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ زراعت ہی متاثر ہو رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جون کے بعد ہونے والے مون سون بارشوں سے سیلاب آیا جس کی وجہ سے کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا۔

سید ساجدین کہتے ہیں کہ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے فصلوں کی کاشت کی سائیکل میں کسی حد تک تبدیلی کی جاسکتی ہے اور فصلوں کی نئی اقسام کو متعارف کرایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ کہ فصلوں کی کاشت کے سائیکل کو تبدیل کرنا ایک چیلنج ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

موسمیاتی تبدیلی: اسکردو کن مسائل سے دوچار ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب اور دیگر علاقوں میں سیلا ب کی وجہ ے کپاس کی فصل متاثر ہوسکتی ہے اور اس لیے ایک ریسرچ کی ضرورت ہے کہ وہ کونسی فصلیں ہیں جو پانی زیادہ آنے پر اگائی جا سکتی ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ گندم کو اگرچہ سیلاب سے اتنا خطرہ نہیں ہے کیوں کہ یہ ان علاقوں میں اگائی جاتی ہے جہاں سیلاب آنے کی شرح کم ہے لیکن اس کے باوجود بھی خشک سالی کی وجہ سے گندم کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔

کاشت کے وقت میں تبدیلی

پیر مہر علی شاہ ایریڈ ایگری کلچر یونیورسٹی کے شعبہ زراعت کے اسسٹنٹ پروفیسر غلام عباس شاہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں مختلف فصلوں خاص طور پر گندم کی کاشت کرنے کے وقت میں تبدیلی کے بارے میں کسانوں میں آگاہی کی ضرورت ہے۔

ٖغلام عباس شاہ کہتے ہیں کہ عمومی طورپر پاکستان میں گندم کی بوائی 15 اکتوبر کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ البتہ تجرباتی بنیادوں پر یہ کام ہو چکا ہے کہ گندم کی فصل کی بوائی معمول سے 15 دن قبل کی جائے تو زیادہ بارش، ہیٹ اسٹریس اور خشک سالی کے اثرات سے کسی حد تک بچا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے دیگر فصلوں کے علاوہ گندم کی پیداوار بھی متاثر ہو رہی۔

غلام عباس شاہ مزید کہتے ہیں کہ فصل کی کاشت کی سائیکل کو تبدیل کرنے سے پیداوار میں 20 سے 30 فی صد ہونے والی کمی کو روکا جا سکتا ہے۔