فیس بک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ’سی ای او‘ مارک زوکر برگ نے کہا ہے کہ چند سال قبل پاکستان میں ایک انتہا پسند نے انھیں موت کی سزا دلوانے کے لیے سر توڑ کوشش کی تھی۔
جمعہ کو فیس بک پر اپنے پیغام میں زوکر برگ نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ چونکہ "فیس بک نے پیغمبر اسلام سے متعلق ایسے مواد کو ہٹانے سے انکار کر دیا تھا کہ جو اس شخص کے لیے خفگی کا باعث تھا۔"
زوکربرگ کا یہ بیان پیرس میں ایک جریدے پر ہونے والے ہلاکت خیز حملے کے دو روز بعد سامنے آیا ہے۔ اس جریدے نے بھی کچھ سال پہلے پیغمبر اسلام سے متعلق مبینہ طور تضحیک آمیز خاکے شائع کیے تھے۔
بدھ کو تین مسلح افراد نے جریدے 'چارلی ایبڈو' کے دفتر میں گھس کر فائرنگ کر کے مدیر اعلیٰ اور تین سنیئر کارٹونسٹس سمیت کم ازکم 12 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
زوکربرگ نے فیس بک سے مبینہ متنازع مواد نہ ہٹانے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ "ہم اس لیے کھڑے ہوئے کہ مخالف آوازیں ۔۔۔ بھلے وہ کبھی خفگی پر مبنی ہی کیوں نہ ہوں۔۔۔ دنیا کو ایک دلچسپ اور بہتر جگہ بنا سکتی ہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ "ہر ملک کے قوانین کی پاسداری کرتی ہے اور یہ کسی بھی ایک ملک یا لوگوں کے گروپ کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ یہ طے کریں کہ دنیا بھر کے لوگ کیا شیئر کریں۔"
زوکربرگ نے کہا کہ پیرس میں ہوئے حملے پر اپنا ردعمل اور انتہاپسندی سے متعلق اپنا تجربہ بیان کرنے کے بعد کہا کہ "یہی وہ چیز ہے جسے ہم نے مسترد کرنا ہے۔۔۔ انتہا پسندوں کا ایک گروہ دنیا میں بسنے والے دیگر لوگوں کی آوازوں اور خیالات کو خاموش کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ سب کچھ فیس بک پر نہیں ہونے دیں گے اور ایک ایسی سہولت فراہم کرنے کے لیے وہ پرعزم ہیں جہاں سب تشدد کے خوف کے بغیر آزادانہ بات کر سکیں۔
زوکربرگ کے اس پیغام کے ردعمل میں پاکستانیوں کی طرف سے مختلف جوابات بھی سامنے آئے جن میں کہا گیا کہ پاکستانیوں کو خود انتہا پسندی کا سامنا ہے لیکن "کسی ایک شخص کے لیے پورے ملک کو الزام دینا درست بات نہیں۔"
اس پر زوکربرگ کا کہنا تھا کہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ پاکستانیوں کی اکثریت اس شخص جیسی نہیں جس نے انھیں سزائے موت دلوانے کے لیے کوشش کی تھی۔