سماجی روابط کی ویب سائٹس مثلاً ٹوئٹر اور فیس بک نے ہمیں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کر دیا ہے۔ جہاں ہم کمپیوٹر کے سامنے سے اٹھے بغیر نا صرف اپنے دوستوں سے رابطے میں رہ سکتے ہیں بلکہ، نئے دوست بھی بنا سکتے ہیں۔
لیکن، نئی تحقیق میں ماہرین یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کیا دوستی کے تعلقات براہ راست کے رابطے کے بغیر بھی پنپ سکتے ہیں۔
یہ تازہ تحقیق آکسفورڈ یونیورسٹی کے تحقیق کاروں کی طرف سے منعقد کی گئی تھی جس میں مطالعے کے سربراہ ڈاکٹر رابن ڈنبر کو معلوم ہوا کہ ہماری نفسیاتی رکاوٹیں جو ہمیں اصل زندگی میں زیادہ قریبی دوست بنانے سے روکتی ہیں، وہی رکاوٹیں آن لائن قریبی دوستوں کی تعداد کو بھی محدود کرتی ہیں۔
یہ تحقیق 'رائل سوسائٹی اوپن سائنس' کی جنوری کی اشاعت کا حصہ ہے۔ جس میں ڈاکٹر رابن ڈنبر نے کہا کہ یقینی طور پر فیس بک کی وجہ سے کبھی کبھار ملنے جلنے والے دوستوں کے ساتھ بھی تعلقات کو کسی نا کسی حد تک برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ ''اگر آپ اپنے دوستوں سے وقتاً فوقتاً ملاقاتیں نہیں کرتے ہیں تو صرف سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے سے آپ اپنے دوستوں کو واقف کار بننے سے نہیں روک سکتے ہیں''۔
انھوں نے کہا کہ ''چہرے سے چہرے کے رابطے میں کوئی ایسی خاص بات ہے، جو دوستی کے رشتے کو برقرار رکھنے میں اہم ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وقتاً فوقتاً دوستوں کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بات چیت کرنا دوستی کو مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے''۔
پروفیسر ڈنبر اور ان کے ساتھیوں نے دو مطالعاتی جائزے شروع کیے جس میں انھوں نے سماجی دماغ کے نظریہ کی جانچ پڑتال کی یہ ایک سوچ ہے جو بتاتی ہے کہ ہمارا دماغ تعلقات نبھانے کے لیے صرف 100 سے 200 افراد کے سائز کا گروپ تشکیل دینے کے قابل ہے۔
یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے زیادہ حقیقی دوست بن سکتے ہیں محققین نے اپنے دو جائزوں کے لیے 3,300 شرکاء کو شامل کیا۔
ایک عام سوشل میڈیا کے صارف نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر اس کے دوستوں کی اوسط 155 ہے۔ اسی طرح دوسرے جائزے کے شرکاء کے مطابق ان کے آن لائن دوستوں کی اوسط 183 تھی۔
تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے فیس بک کے دوستوں سے کتنا قریب ہیں؟
تو شرکاء سماجی دماغ کے نظریہ 'سوشل برین ہائپوتھیسس' سے متفق نظر آئے جس کے مطابق انسان نفسیاتی طور پر زیادہ دوستیاں نبھانے کے قابل نہیں ہے۔
فیس بک پر 155 دوست رکھنے والے صارفین نے بتایا کہ وہ دوستوں کے گروپ میں سے صرف 28 دوستوں کو اپنا حقیقی دوست سمجھتے ہیں۔
مزید برآں انھوں نے وضاحت کی کہ فیس بک پر وہ صرف 4 ایسے دوست رکھتے ہیں۔
جنھیں وہ مصیبت کے وقت میں پکار سکتے ہیں۔ جب کہ 14 وہ دوست ہیں جن سے انھیں مشکل وقت میں ہمدردی مل سکتی ہے۔
حتیٰ کہ فیس بک کے ایسے صارفین جن کے دوستوں کی اوسط زیادہ تھی۔
انھوں نے بھی مشکل حالات میں مدد اور ہمدردی کے لیے صرف چند دوستوں کے نام لیے۔
شریک محقق فج ایس نے مطالعے سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے، جہاں نئے اور پرانے دوستوں کے ساتھ دوستی کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
''اس تحقیق سے ظاہر ہوا کہ چہرے سے چہرے کا رابطہ مستند تعلقات کے لیے بے حد ضروری ہے''۔
فیس بک کے پوسٹ، لائیکس اور سیلفیاں اس خوشی کا متبادل نہیں بن سکتی ہیں جو خوشی آپ کو دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے سے حاصل ہوتی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ سچ ہے کہ فیس بک جہاں آپ کو نئے دوست بنانے کے قابل بناتا ہے وہیں آپ کے واقف کاروں کو دوست بنانے کی اجازت دیتا ہے جب کہ حقیقی دنیا میں ہم واضح طور پر اپنے قریبی اور دور کے رشتوں میں فرق کر سکتے ہیں۔