تحریک انصاف کی طرف سے صوبہ پنجاب کے صنعتی شہر فیصل آباد میں احتجاج کے دوران عمران خان کے حامیوں اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے درمیان کئی مقامات پر تصادم ہوا، جس میں ایک شخص ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہو گئے۔
حکومت کے خلاف احتجاج میں مصروف جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حال ہی میں ’پلان سی‘ کا اعلان کرتے ہوئے ملک کے تمام بڑے شہروں کو ایک ایک دن کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس منصوبے کے تحت سب سے پہلے فیصل آباد میں احتجاج کا اعلان کیا گیا تھا۔ پیر کی صبح تحریک انصاف کے کارکن ناولٹی چوک، الائیڈ چوک اور ملت روڈ پہنچے جہاں اُنھوں نے ٹائر جلا کر سڑکیں بند کرنے کی کوشش کی۔
لیکن اس دوران حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے حامی بھی بڑی تعداد میں وہاں پہنچ گئے اور دونوں گروپوں میں تصادم ہوا جس میں ایک دوسرے پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔
پولیس کارکنوں کو منشتر کرنے کے لیے کوششیں کرتی رہی اور بعض مقامات پر اضافی نفری بھی تعینات کی گئی۔
فیصل آباد کے مرکزی چوک ’گھنٹہ گھر‘ میں بھی دونوں جماعتوں کی طرف سے اپنے اپنے حق میں بڑے بڑے پوسٹر اور بینر لگائے گئے تھے۔ اس مقام پر بھی دونوں جماعتوں کے حامی بڑی تعداد میں پیر کی صبح جمع تھے۔
اُدھر فیصل آباد کی تاجر برادری اور ٹرانسپورٹروں نے تحریک انصاف کی کال مسترد کرتے ہوئے کاروبار اور ٹرانسپورٹ بند نا کرنے کا اعلان کیا تھا۔
عمران خان کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ زبردستی کاروبار بند نہیں کروائے جائیں گے۔
تحریک انصاف مئی 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر حکومت کے خلاف احتجاج میں مصروف ہے اور یہ جماعت اگست کے وسط سے اسلام آباد میں دھرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد میں 30 نومبر کو ایک بڑے جلسے سے خطاب میں اپنی آئندہ کی حکمت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ چار دسمبر کو لاہور، آٹھ دسمبر کو فیصل آباد، 12 دسمبر کو کراچی اور 16 دسمبر کو پورا پاکستان ’بند‘ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
16 دسمبر کو سقوط ڈھاکا ہوا تھا اور اس تناظر میں تحریک انصاف پر بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کی گئی کہ اُس دن جب پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوا عمران خان پاکستان بھر میں احتجاج کرنے جا رہے ہیں۔
بظاہر اس تنقید کے بعد تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے کہا گیا کہ 16 کی بجائے 18 دسمبر کو پاکستان بند کیا جائے گا۔
حکومت کے عہدیداروں کی طرف سے یہ بیانات سامنے آئے کہ وہ تحریک انصاف سے مذاکرات چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے احتجاج کی کال واپس لی جائے۔