فاخرہ یونس مر گئی ۔۔۔ اگر موت جسم کو روح کے بوجھ سے آزاد کرنے کا نام ہے تو فاخرہ یونس کی موت واقعی اب ہوئی ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ فاخرہ ایک بد کردار عورت تھی، انسانیت کے چہرے پر ایک ایسا بدنما داغ جو کسی ایسے ہی سلوک کا مستحق تھا۔ کچھ کے نزدیک کراچی کے بلبل بازار میں رہنے والی ایک عام سی عورت کو اونچے خواب دیکھنے کا حق ہی کہاں تھا؟ بھلا شرافت، نجابت، دولت اور خاندان کے پیمانے ان خواتین کے لیے تو نہیں بنائے گئے۔
لیکن کیا وہ آپ کی اور میری طرح ایک انسان نہیں تھی؟
آج سے چند سال پہلے جب میں نے صحافت کی عملی زندگی میں قدم رکھا تو معاشرے کے بہت سے ایسے چہروں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جنہیں عموما ہم فراموش کر دیتے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ جن کی یاد ہمیں محض کسی ’’عالمی دن‘‘ کے موقعے پر اپنے اخبار یا ٹی وی کا پیٹ بھرنے کے لیے ہی آتی ہے۔ میں سولہ سال کی ایک ایسی لڑکی پر فیچر سٹوری کر رہی تھی جسے ایک شخص نے شادی سے انکار کرنے کے ’’جرم ‘‘ پر تیزاب سے جھلسایا تھا۔ چادر میں لپٹی وہ لڑکی اپنے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ آئی تھی۔ جب اس نے اپنے چہرے سے چادر ہٹائی تو وہاں چند گڈمڈ نقوش اور جلی سکڑی جلد کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔ اس لڑکی کو دیکھ کر یکدم مجھے چند سال پہلے ایک پریس کانفرنس میں اپنے اوپر ظلم بیان کرتی فاخرہ یونس کی یاد آئی۔ شاید تیزاب سے جلے سارے چہرے ایک جیسے ہوتے ہیں۔
اور اب بہت عرصے بعد پچھلے چند دنوں سے فاخرہ یونس پھر سے میری یادوں میں زندہ ہو گئی ہے۔ ٹی وی چینلز پر چلنے والی لال پٹیاں پل پل کی خبر دے رہی تھیں۔ ’’فاخرہ یونس نے روم میں چھٹی منزل سے کود کر خودکشی کر لی‘‘، ’’فاخرہ یونس کی میت پاکستان پہنچ گئی‘‘، ’’فاخرہ کو سپرد ِ خاک کر دیا گیا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
سچ تو یہ ہے کہ فاخرہ یونس آج سے بارہ سال پہلے اس وقت ہی مر گئی تھی جب اس پر تیزاب پھینکا گیا تھا۔ ہر بار آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر، انصاف کی آس باندھے ۔۔۔ وہ پچھلے بارہ برسوں میں قطرہ قطرہ گھلتی رہی، مرتی رہی۔۔۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں مری ہوئی فاخرہ کا نوحہ تو سب کی زبان پر ہے لیکن زندہ فاخرہ کی یاد کسی کو نہ آئی۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں فاخرہ کی موت کے بعد بھی اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگانے والوں کی کمی نہیں ۔۔۔ اور ایک ایسے معاشرے میں جہاں فاخرہ کی کہانی بیچ کر تجوریاں بھرنے والے تو بہت تھے لیکن اس کا ہاتھ تھام کر راستہ دکھانے والا کوئی بھی نہیں ۔۔۔ فاخرہ کا انجام خودکشی کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا تھا؟
بقول فیض
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخن ِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخی ِ لب ِ خنجر نہ رنگ ِ نوک ِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ ۔۔۔